Pages

صفحات

صفحات

شکیل اعظمی کی اردو شاعری

غزل

درد کی حد سے گزارے تو سبھی جائیں گے

جلد یا دیر سے مارے تو سبھی جائیں گے


ندیاں لاشوں کو پانی میں نہیں رکھتی ہیں

تیرے یا ڈوبے کنارے تو سبھی جائیں گے


چاہے کتنی بھی بلندی پہ چلا جائے کوئی

آسمانوں سے اتارے تو سبھی جائیں گے


مسجدیں سب کو بلاتی ہیں بھلائی کی طرف

آئیں نہ آئیں پکارے تو سبھی جائیں گے

شکیل اعظمی

غزل

کوئی ملبوس ہو کستا نہیں ہے

ہمیں اب سانپ بھی ڈستا نہیں ہے


یہ بچے جانے کس اسکول کے ہیں

کسی کی پیٹھ پہ بستہ نہیں ہے


یہاں سب اپنی چھت پر چل رہے ہیں

گھروں کے بیچ میں رستہ نہیں ہے


درختوں پر قصیدے لکھ رہا ہوں

کلہاڑی میں ابھی دستہ نہیں ہے

شکیل اعظمی

غزل

پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے

زمیں پہ بیٹھ کہ کیا آسمان دیکھتا ہے


یہی وہ شہر جو میرے لبوں سے بولتا تھا

یہی وہ شہر جو میری زبان دیکھتا ہے


میں جب مکان سے باہر قدم نکالتا ہوں

عجب نگاہ سے مجھ کو مکان دیکھتا ہے


گھٹائیں اٹھتی ہیں برسات ہونے لگتی ہے

جب آنکھ بھر کے فلک کو کسان دیکھتا ہے


ملا ہے حسن تو اس حسن کی حفاظت کر

سنبھل کے چل تجھے سارا جہان دیکھتا ہے


کنیز ہو کوئی یا کوئی شاہزادی ہو

جو عشق کرتا ہے کب خاندان دیکھتا ہے

شکیل اعظمی

غزل

اچھا ہے میرے غم کا کسی کو پتا نہیں

اس گھر میں کوئی میرے سوا جاگتا نہیں


اب کے شب خموش بڑی خوفناک ہے

تارہ بھی آسماں سے کوئی ٹوٹتا نہیں


بستی کا خواب رات کے چہرے پہ مار دے

جنگل سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں


پہلے ہماری بھول پہ بھی آنکھ کان تھے

اب لڑکھڑائیں بھی تو کوئی ٹوکتا نہیں

شکیل اعظمی

غزل

ابر میں برق سے پانی کا جہاں روشن ہے

دور تک ایک معانی کا جہاں روشن ہے


مچھلیاں تیرتی جاتی ہیں چراغوں کی طرح

ٹھہرے پانی پہ روانی کا جہاں روشن ہے


چاند چہروں پہ مہاسوں کی کرن پھوٹتی ہے

جسم میں ایک جوانی کا جہاں روشن ہے


لفظ در لفظ دہکتے ہیں مرے غم کے الاؤ

مجھ میں اک شعلہ بیانی کا جہاں روشن ہے


باری باری سبھی کردار بجھے جاتے ہیں

ایک راوی سے کہانی کا جہاں روشن سے

شکیل اعظمی

غزل

میں اچھا تھا، مگر بدنام تھا کچھ

کہ میرے سر پہ بھی الزام تھا کچھ


در و دیوار میں لو چل رہی ہے

سفر کی دھوپ میں آرام تھا کچھ


ملا تھا ایک خوشبو دار چہرہ

گلوں سے ملتا جلتا نام تھا کچھ


میں پہنچا تو وہ واپس جا چکی تھی

مجھے بھی زندگی سے کام تھا کچھ


اُن آنکھوں میں، جو ہم سے چھپ رہی تھیں

ہمارے واسطے پیغام تھا کچھ


اسے کیا ہجر کہتے اور کیا وصل

محبت کا عجب انجام تھا کچھ

شکیل اعظمی

غزل

یہ خوف بھی نکال دوں، سر میں نہیں رکھوں

گھر کا خیال اب کے سفر میں نہیں رکھوں


بے آب کرکے آنکھ کو دیکھوں ہر ایک شے

منظر کہیں کا بھی ہو نظر میں نہیں رکھوں


یہ گرد بھی اتار دوں اس بار جسم سے

باہر کی کوئی چیز ہو گھر میں نہیں رکھوں


گھر بار چھوڑ دوں کہ یہی چاہتا ہے ذوق

سود و زیاں کی بات ہنر میں نہیں رکھوں


آندھی بھی جائے باغ میں پھل توڑتی پھرے

میں بھی چراغ را بگذر میں نہیں رکھوں


پیمان وفا کے لئے سر ہے جان ہے

دل کو مگر کسی کے اثر میں نہیں رکھوں


دیکھوں تو مجھ کو کون نکلتا ہے ڈھونڈ نے

کچھ روز اور خود کو خبر میں نہیں رکھوں

شکیل اعظمی

غزل

میں بھی تنہا ہوں، اکیلی سی لگے ہے وہ بھی

اپنی آنکھوں میں پہلی سی لگے ہے وہ بھی


میرے اندر بھی خموشی ہے مزاروں جیسی

ایک ویران حویلی کی لگے ہے وہ بھی


میں بھی جلتا ہوں چراغوں کی طرح کمرے میں

اپنے آنگن میں چمیلی سی لگے ہے وہ بھی


راستہ بھولا ہوا ہوں کوئی شہزادہ میں

اور پریوں کی سہیلی کی لگے ہے وہ بھی


میری آنکھوں میں مہکتا ہے حنائی موسم

اپنی رنگین ہتھیلی سی لگے ہے وہ بھی


گاؤں کے میلے میں اک عاشق دل پھینک سا میں

اور اک نار نویلی کی لگے ہے وہ بھی


گچھا باندھوں تو لگوں میں بھی بنارس جیسا

مجھمکا پہنے تو بریلی کی لگے ہے وہ بھی

شکیل اعظمی

غزل

بازار میں اک ہم ہی ضرورت کے نہیں تھے

بکتے بھی تو کیسے کسی قیمت کے نہیں تھے


ہم ایک ہی معبود رکھا کرتے تھے جب تک

ہم میں کبھی جھگڑے قد و قامت کے نہیں تھے


الہام سے اک خاص تعلق تھا ہمارا

ہم لوگ مگر عہد نبوت کے نہیں تھے


اس بار ہی کیوں ٹوٹ گئے اس سے بچھڑ کر

اس بار تو رشتے بھی محبت کے نہیں تھے


اس نے تو کئی بار قدم گھر سے نکالے

ہم میں ہی جراثیم بغاوت کے نہیں تھے

شکیل اعظمی

غزل

سفر ہو کوئی بھی تقلید ہم نہیں کرتے

کہ چاند دیکھے بنا عید ہم نہیں کرتے


تمہاری بات بھلی ہے بُری ہے، تم جانو

ہماری مرضی ہے تائید ہم نہیں کرتے


مخالفت کے لئے بھی بہاؤ لازم ہے

کہ ٹھہرے پانی پر تنقید ہم نہیں کرتے


بڑوں نے اتنا ڈرایا تھا ہم کو بچپن میں

کہ اپنے بچوں کو تاکید ہم نہیں کرتے


ہمارے پاس اگر آسمان ہوتا شکیلؔ

سپرد خاک یہ خورشید ہم نہیں کرتے

شکیل اعظمی

غزل

ایک سوراخ سا کشتی میں ہوا چاہتا ہے

سب اثاثہ مرا پانی میں بہا چاہتا ہے


مجھ بکھرایا گیا اور سمیٹا بھی گیا

جانے اب کیا میری مٹی سے خدا چاہتا ہے


ٹہنیاں خشک ہوئیں جھڑ گئے پتے سارے

پھر بھی سورج میرے پودے کا بھلا چاہتا ہے


ٹوٹ جاتا ہوں میں ہر روز مرمت کر کے

اور گھر ہے کہ مرے سر پہ گرا چاہتا ہے


صرف میں ہی نہیں سب ڈرتے ہیں تنہائی سے

تیرگی روشنی ویرانہ صدا چاہتا ہے


ؔدن سفر کر چکا اب رات کی باری ہے شکیل

نیند آنے کو ہے دروازہ لگا چاہتا ہے


شکیل اعظمی

غزل

کواڑ بند گھروں کی چھتوں سے نکلے ہیں

ہوا بغیر ہی ہم رفعتوں سے نکے ہیں


یہ آسمان تو میرا ہی خیمۂ شب ہے

تمام رنگ مری وحشتوں سے نکلے ہیں


نشہ کیا ہے تو کچھ دیر لڑکھڑانے دے

ابھی ابھی تو تری صحبتوں سے نکلے ہیں


بدن بدن تو نہ تھا تجھ کو بھولنے کا عمل

لہو میں ڈوبی ہوئی رغبتوں سے نکلے ہیں


اب اس لکیر کو چمکائیں گے ہمی مل کر

یہ فاصلے بھی گھنی قربتوں سے نکلے ہیں


فرشتگی تو ضروری ہے واپسی کے لئے

ہم آدمی کی طرح جنتوں سے نکلے ہیں

شکیل اعظمی