مضامین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مضامین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ڈاکٹر مورس بکائی کا قبول اسلام

ڈاکٹر مورس بکائی کا قبول اسلام۔

تعارف : مورس بکائی وہ شخصیت ہے جو سلطنت فرانس کے لیے سرمایۂ فخر ہے انہوں نے (19 جولائی 1920ء) کو فرانسیسی ماں باپ کے ہاں جنم لیا تھا ان کی پرورش بھی اسی نہج پر ہوئی جس نہج پر فرانس میں نصرانی بچوں کی پرورش ہوتی ہے اپنی ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نےفرانس یونیورسٹی کے کلیتہ طب (میڈیکل فیکلٹی) میں داخلہ لیا وہ ہمیشہ امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتے رہے اور آخر کار انہوں نے طب کی تعلیم مکمل کرلی۔ وہ اپنے میدان میں ترقی کی منازل طے کرتا رہا حتیٰ کہ جدید فرانس کے سب سے زیادہ مشہور سرجن کے طور پر اپنا لوہا منوایا۔ اور پھر ایک ماہر سرجن کی حیثیت سے ان کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی یکسر بدل کر رکھ دی۔

فرعون کی لاش کی مصر سے فرانس منتقلی

فرانس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کو قدیم ورثے اور آثار قدیمہ کی حفاظت میں سب سے زیادہ دلچسپی رہی ہے۔ 1981ء میں جب فرانس کے صدر فرانسیس متراں نے اقتدار سنبھالا تو فرانس کی حکومت نے اسی کی دہائی کے آخر میں حکومت مصر سے درخواست کی کہ وہ فرعون مصر کی ممی (Mummy) کو فرانس لانا چاہتی ہے اور اس پر تحقیقات کے بعد اس کی شکست و ریخت کی مرمت کرنا چاہتی ہے۔ مصر نے یہ درخواست قبول کر لی اور تاریخ مصر کے سب سے بڑے شیطان و طاغوت کے مردہ جسم کو مصر سے فرانس منتقل کر دیا گیا۔ ہوائی اڈے پر فرانسیسی صدر اپنے بیشتر وزراء اور اعلی حکام کے ساتھ اس کے شایان شان استقبال کے لیے موجود تھے۔ آخر وہ اپنے وقت کا مشہور و مغرور حکمران تھا۔ اور اس کا استقبال بھی یہ بتلا رہا تھا گویا وہ ابھی مرا نہیں زندہ ہے اور چیخ چیخ کر کہ رہا ہے اَنَا رَبُ٘کُمُ الاَ ع‍‍‍‍لیٰ۔ میں ہی تمہارا سب سے برتر پروردگار ہوں۔

لاش کا معائنہ

سرزمین فرانس پہنچنے کے بعد جب فرعون مصر کے شاہانہ استقبال کی تقریبات ختم ہو چکیں تو اس کی ممی کو ایک سواری پر رکھ دیا گیا۔ یہ سواری بھی بڑی دھوم دھام کے ساتھ جہاں جہاں سے گذری اس کا شاندار استقبال کیا گیا اور آخر کار اسے فرانس کے مرکز آثار قدیمہ کے ایک خاص حصے میں پہنچا دیا گیا۔ تاکہ فرانس کے تمام بڑے بڑے علمائے آثار قدیمہ بڑے بڑے ڈاکٹرز، سرجنز، اور ماہرین اس ممی کا مطالعہ کر سکیں اور اس کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھا سکیں۔ فرعون کی ممی کا معائینہ کرنے والی اس ٹیم کی سربراہی فرانس کے سب سے بڑے سرجن ڈاکٹر مورس بکائی کے پاس تھی۔
سب ماہرین اس ممی کی مرمت میں مشغول و منہمک تھے جبکہ ان کے سربراہ ڈاکٹر مورس بکائی کے سامنے کوئی اور ہی مقصد تھا وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس فرعون کا انتقال کس طرح ہوا۔ رات کے پچھلے پہر اس کے مختلف امتحانی نمونوں کے نتائج سامنے آگئے اس کے جسم کے ساتھ چمٹے ہوئے نمک کے ذرات اس بات کا پتہ دے رہے تھے کہ اس کا انتقال سمندر کے پانی میں غرق ہونے کی وجہ ہوا ہے امتحانی نمونوں سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ غرق ہونے فوراً بعد ہی اس کے مردہ جسم کو سمندر سے نکال لیا گیا اور پھر فوراً ہی اسے محفوظ کر دیا گیا تاکہ اس کا جسم محفوظ رہ جائے۔ یہ ایک عجیب بات اسے مسلسل حیرت و استعجاب میں ڈالے ہوئے تھی کہ اس کا مردہ جسم دوسرے فرعونوں کے محفوظ شدہ اجسام سے زیادہ محفوظ کیونکر رہ گیا حالانکہ اسے سمندر سے نکالا گیا تھا۔

مورس بکائی کی تحقیق

ڈاکٹر مورس بکائی اس سلسلے میں اپنی حتمی رپورٹ تیار کررہے تھے ان کے خیال میں یہ ایک بڑا چونکا دینے والا انکشاف تھا کہ فرعون کے مردہ جسم کو غرق ہونے کے فوراً بعد ہی سمندر سے نکال لیا گیا تھا اور اس کو محفوظ کر دیا گیا تھا۔ اس کو یوں لگا جیسے اس کے کان میں کوئی سرگوشی کر رہا ہے کہ ٹھہرو، جلدی نہ کرو سنو مسلمان بھی اس ممی کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں لیکن پھر اس نے یہ کہ کر اس خیال کو جھٹک دیا کہ اس بات کا انکشاف ان کو کیسے ہو سکتا ہے یہ بات تو صرف ماڈرن سائنس ہی کی روشنی میں مختلف جدید کمپیوٹرائزڈ آلات کے ذریعے ہی معلوم ہو سکتی ہے جو انتہائی حد تک دقیق معلومات بھی پوری صحت کے ساتھ بتا دیتے ہیں۔
کسی مسلمان نے اس سے کہہ دیا کہ ہمارا قرآن جس پر ہمارا ایمان ہے وہ اس فرعون کے غرق ہونے کا قصہ بیان کرتا ہےاور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ غرق ہو جانے کے بعد اس کا مردہ جسم صحیح و سالم رہے گا اس کی حیرانگی بڑھتی چلی گئی وہ پوچھنے لگا کہ یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے جبکہ 1898ء سے پہلے اس ممی کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہ تھا جبکہ ان کا قرآن تو چودہ سو سال سے ان کے پاس محفوظ ہے۔
عقل اس بات کو قبول نہیں کرتی صرف عرب ہی نہیں پوری انسانیت میں سے کسی کو معلوم نہ تھا کہ قدیم مصری لوگ اپنے فرعونوں کے مردہ جسموں کو محفوظ کر دیا کرتے تھے یہ بات تو لوگوں کو صرف چند دہائیاں پہلے معلوم ہوئی ہے۔
مورس بکائی اس پوری رات فرعون کے مردہ جسم کے پاس بیٹھا رہا وہ سوچ بچار میں گم رہا اسے رہ رہ کر اپنے کان میں کی جانے والی اس سرگوشی کا خیال آجاتا جس میں اسے کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کا قرآن بتاتا ہے کہ غرق ہونے کے بعد فرعون کے مردہ جسم کو بچا لیا جائے گا۔ دوسری طرف ان کی کتاب مقدس (انجیل) صرف یہ بتاتی ہے کہ فرعون سیدنا حضرت موسیٰؑ کا تعاقب کرتے ہوئے غرق ہو گیا تھا لیکن فرعون کے مردہ جسم کا کیا انجام ہوا اس کے بارے میں وہ خاموش ہے۔
وہ اپنے دل میں کہنے لگا : کیا یہ بات عقل تسلیم کرتی ہے کہ یہ محفوظ شدہ ممی مصر کا وہ فرعون ہے جس نے حضرت موسیٰؑ کا تعاقب کیا تھا؟ کیا یہ بات عقل تسلیم کرتی ہے کہ محمدﷺ اس بات کو چودہ سو سال پہلے جان چکے تھے جو مجھے اس وقت معلوم ہو رہی ہے؟
وہ اس پوری رات سو نہ سکا اس نے کہا مجھے تورات لا کر دو اس نے تورات میں کتاب خروج کو پڑھنا شروع کیا۔ تورات میں لکھا تھا:
اور پانی پلٹ کر آیا اور اس رتھوں اور سواروں اور فرعون کے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کر دیا اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوٹا۔

(تورات: فقرہ نمبر28)

مورس حیرت کی تصویر بنا سوچتا رہا تورات کے بعد اس نے انجیل کا مطالعہ کرنا شروع کیا انجیل میں بھی فرعون کے مردہ جسم کی نجات و سلامتی کے بارے میں کوئی بات مذکور نہیں تھی جب فرعون کی اس ممی ٹریٹمنٹ اور اس کی شکست و ریخت کی مرمت کا کام مکمل ہو گیا تو فرانس نے فرعون کی اس ممی کو شیشے کے ایک ایسے شاندر تابوت میں رکھ کر دوبارہ مصر بھجوا دیا جو فرعون کے شایان شان تھا لیکن مورس کو جب سے یہ بات معلوم ہوئی تھی کہ مسلمان اس فرعون کے مردہ جسم کی سلامتی و نجات کے بارے میں بتاتے رہے ہیں تب سے اس کے اندر کا سکون متزلزل ہو گیا تھا۔

مورس بکائی کا قبول اسلام

اسے کسی پل صبر و قرار نہیں آرہا تھا اس نے رخت سفر باندھا اور سعودی عرب میں ہونے والی ایک میڈیکل کانفرنس میں پہنچ گیا جس میں پوسٹ مارٹم اور اناٹومی کے ماہرین مسلم اطباء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اس نے اس کانفرنس فرعون کے غرق ہونے کے بعد اس کے مردہ جسم کی سلامتی و حفاظت کے بارے میں اپنے انکشاف کا ذکر کیا یہ سن کر ایک مسلمان ڈاکٹر اٹھا اور اس کے سامنے جاکر قرآن کریم کھول دیا۔ وہ قرآن کریم کی یہ آیت پڑھنے لگا:
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةًؕ
ترجمہ: ہم آج تیرے مردہ بدن کو محفوظ رکھیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا رہے۔

(القرآن: سورۃ یونس آیت نمبر 92)

اس آیت کا تاثر اس کے قلب و ذہن پر بہت گہرا ہوا وہ ایک دفعہ لرز کر رہ گیا وہ اسی وقت کھڑا ہوا اور اس نے تمام حاضرین کے سامنے بلند آواز کے ساتھ اعلان کر دیا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میں قرآن کی صحت و صداقت پر ایمان لے آیا ہوں مورس بکائی جب واپس فرانس پہنچا تو وہ پہلے والا مورس بکائی نہیں تھا وہ ایک بلکل بدلا ہوا شخص تھا وہ فرانس میں دس سال رہا اور اس کا صرف ایک ہی کام تھا کہ وہ قرآن کریم کے ذکر و بیان سے مطابقت رکھنے والے جدید زمانے میں منکشف ہونے والے سائنسی حقائق کا مطالعہ کر رہا تھا اس نے یہ بھی دیکھا کہ قرآن کریم کے بیان اور سائنسی انکشافات میں کہاں تضاد پایا جاتا ہے آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ:
لَّا یَاْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖؕ-تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ
ترجمہ: باطل نہ اس کے مقابلے پہ سامنے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے یہ ایک بڑے حکمت والے قابل تعریف کا نازل کردہ کلام ہے۔

(القرآن: سورۃ فصّلت آیت نمبر 42)

مورس بکائی کی کتاب

مورس بکائی نے فرانس میں جو مدت گذاری اس کا حاصل ایک ایسی کتاب کی تیاری و تکمیل تھا جس نے مغربی دنیا کو ہلا دیا ایک دفعہ اس نے سائنسدنوں اور اہل علم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اس کتاب کا نام قرآن تورات و انجیل اور سائنس جدید معارف و حقائق کی روشنی میں کتب مقدسہ کا مطالعہ ہے۔
اس کتاب نے کیا تہلکہ مچایا؟ جیسے ہی یہ کتاب بازار میں پہنچی اس کے سارے نسخے ہاتھوں ہاتھ بک گئے کتاب کی نہ صرف از سر نو لاکھوں کی تعداد میں اشاعت ہوئی بلکہ اصل فرانسیسی زبان عربی، انگریزی، انڈونیشی، فارسی، ترکی، اردو، گجراتی اور جرمنی کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی اس کے تراجم شائع ہوئے۔

غیر مسلموں کی طرف کتاب کا جوب لکھنے کی کوشش

مشرق و مغرب کے ہر کتب خآنے میں یہ کتاب نظر آنے لگی یہود و نصاریٰ کے علماء نے اس کتاب کا جواب دینے کی اپنی سی کوشش کی لیکن وہ کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکے ان میں سب سے زیادہ شہرت جس کتاب کو ملی وہ ڈاکٹر ولیم کیمپل کی کتاب تھی جو اس نے مشرق و مغرب میں گھوم پھر کر مواد حاصل کر کے لکھی لیکن اس کتاب کو بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی اس کتاب کا نام تھا۔ قرآن اور کتاب مقدس تاریخ اور سائنس کی روشنی میں
عجیب بات یہ ہے کہ مغرب کے سائنسدانوں اور علماء نے جب مورس بکائی کی کتاب کا جواب دینے کے لیے اس کا مطالعہ شروع کیا تو وہ اس کی گہرائی و گیرائی میں اترتے چلے گئے اور ان میں سے بیشتر نے آخر کار اسلام قبول کر لیا اور ڈنکے کی چوٹ پر قرآن کریم کی صداقت کا اعلان کیا۔
مورس بکائی اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھتا ہے آغاز میں جب میں نے ان سائنسی پہلوؤں پر غور و فکر کیا جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی میں نہیں سمجھتا تھا کہ اس قدر متنوع و مختلف موضوعات کے تحت قرآن نے وہ دقیق ترین انکشافات کیے ہیں جو جو صحت و دقت کے اعلٰی ترین معیاروں پر پورا اترتے ہیں اور جدید ترین ہونے والے سائنسی انکشافات سے اتنی مطابقت و موافقت رکھتے ہیں اس لیے میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ سکتا کہ: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ-وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا
ترجمہ: یہ لوگ قرآن میں غور و فکر کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بڑا تضاد پاتے۔

(القرآن: سورۃ نساء آیت نمبر 82)