تاریخ طبری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تاریخ طبری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

از ابتدائے آفرینش تا ابد زمانہ کی مدت

از ابتدائے آفرینش تا ابد زمانہ کی مدت

دنیا کی مجموعی عمر

ابتدا سے انتہاء تک یعنی تخلیق آدم سے قیامت تک زمانہ کی کل مقدار کے بارے میں علمائے سلف کا اختلاف واقع ہوا ہے۔ بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ زمانہ کی کل مقدار سات ہزار سال ہے اس قول کے قائل حضرت ابن عباسؓ ہیں ان سے مروی ہے کہ دنیا کی مجموعی عمر آخرت کے مقابلے میں سات ہزار سال ہے اس میں سے سات ہزار دوسو سال گزر چکے ہیں اور چند سو سال باقی ہیں۔
(یعنی چند صدیاں باقی ہیں نہ کہ ہزار)
بعض فرماتے ہیں کہ زمانے کی کل مقدار چھ ہزار سال ہے حضرت کعبؓ احبار سے یہی مروی ہے اور حضرت وہبؓ بن منبہ سے بھی اسی طرح نقل کیا گیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ دنیا کو پانچ ہزار چھ سو سال گزر چکے ہیں اور ہرزمانے میں جو انبیاءؑ اور سلاطین گزرے ہیں میں ان سے واقف ہوں راوی نے پوچھا دنیا کی کل مدت کتنی ہے فرمایا چھ ہزار سال۔

حدیث نبویﷺ

ان میں سے درست قول وہ ہے جس کی تائید و تقویت بہت سی احادیث صحیحہ سے ہوتی ہے۔ مثلاً ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپﷺ فرما رہے تھے کہ تمہاری عمر گذشتہ امتوں کے مقابلے میں اتنی ہے جتنا نماز عصر سے غروب شمس تک کا وقت (یعنی جو نسبت اس قلیل وقت کو پورے دن سے ہے وہی نسبت تمہاری مجموعی عمر کو گزشتہ امتوں کی مجموعی عمر سے ہے)۔
ابن عمرؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا آپﷺ فرما رہے تھے کہ خبردار بلاشبہ تمہاری عمر ان امتوں کے مقابلے میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں اتنی ہے جتنا کہ عصر اور مغرب کا درمیانی وقت۔
ابن عمرؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسوللہﷺ نے فرمایا میری امت کے لیے دنیا کی عمر میں صرف اتنی مقدار بچی ہے جتنی بعد نماز عصر سورج غروب ہونے سے باقی رہ جاتی ہے۔
ابن عمرؓ سے ہی مروی ہے کہ ہم نبی کریمﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور سورج قعقعان نامی پہاڑی پر چمک رہا تھا پس آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری عمریں گزری ہوئی امتوں کے مقابلے میں بس اتنی ہیں جتنا دن کا یہ حصہ گزرے ہوئے دن کی نسبت باقی رہ گیا ہے۔
انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن اپنے اصحاب کو خطبہ دیا اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا بس قلیل سا وقت باقی رہ گیا تھا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میں محمدﷺ کی جان ہے دنیا کی بقیہ عمر گزری ہوئی عمر کی نسبت صرف اتنی رہ گئی ہے جتنا کہ یہ دن گزرے ہوئے دن کی نسبت باقی ہے اور تم سورج کو غروب کے قریب ہی دیکھ رہے ہو۔
ابو سعیدؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے غروب شمس کے قریب فرمایا کہ دنیا کا باقی ماندہ حصہ گزرے ہوئے حصہ کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے کہ تمہارے آج کے دن کا بقیہ حصہ گزرے ہوئے دن کے مقابلے میں۔
ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح بھیجے گئے ہیں اور شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ساتھ ملایا۔ ابوہریرہؓ سے ایک دوسری سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔
جابر بن سمرہؓ بھی بلکل یہی حدیث روایت کرتے ہیں اور جابر بن سمرہؓ سے ایک دوسری روایت میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا میں گویا رسول اللہﷺ کی دو انگلیوں کی طرف دیکھ رہا ہوں اور پھر حضرت جابر بن سمرہؓ نے انگشت شہادت اور اس سے متصل (یعنی درمیانی) انگلی کے ساتھ اشارہ فرمایا اور کہا آپ فرما رہے تھے کہ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں(ذرا فرق سے آگے پیچھے) ہیں۔
جابر بن سمرہ ؓ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری بعثت قیامت سے صرف اتنی پہلے ہے جس طرح یہ دو انگلیاں اور پھر آپﷺ نے انگشت شہادت اور وسطی کو جمع کیا۔
شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے قتادہؓ سے اس قصہ کا یہ جملہ بھی سنا ہے کہ جس طرح ان دو انگلیوں میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت ہے لیکن میں یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ میں اس کو قتادہؓ کے حوالے سے نقل کروں یا حضرت انس بن مالکؓ کے حوالے سے (یعنی یہ قول قتادہؓ کا ہے یا انس بن مالک کا مجھے یہ فیصلہ کرنے میں دشواری ہے)۔
انسؓ بن مالک ایک مرتبہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پاس تشریف لائے اس نے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہﷺ سے قیامت کے بارے میں کیا سنا ہے انس بن مالکؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپﷺ فرما رہے تھے کہ تم اور قیامت ان دو انگلیوں کہ طرح قریب قریب ہو اور پھر اپنی دونوں انگلیوں سے انسؓ نے اشارہ کر کے دکھایا۔
عیاش بن ولید اور عبدالرحیم ابرقی کے طرق سے بھی یہ قصہ اسی طرح مروی ہے۔
معبد حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں اور آپﷺ کے کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں اور دونوں انگلیوں کے اشارے دکھائے
ابو التیاح بھی حضرت انس بن مالکؓ سے اسی کی مثل روایت کرتے ہیں۔ سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی دو انگلیوں درمیانی اور انگشت شہادت کے ساتھ اشارکیا اور فرمایا کہ میں اور قیامت ان دونوں کی طرح بھیجے گئے ہیں۔
سہیل بن سعد الساعدیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں اور پھر درمیانی انگلی اور انگشت شہادت کو خم کر کے دکھایا اور یہ بھی فرمایا کہ میری اور قیامت کی مثال دو گھوڑوں کی طرح ہے مزید فرمایا کہ میری اور قیامت کی مثال اس شخص کی طرح ہے جسے کسی قوم نے پیشرو کے طور پر آگے بھیجا ہو/ پس جب اسے دشمن کے حملے کا خطرہ ہوا تو وہ اپنے کپڑے اتار کر چیخا اور قوم کو خبردار کیا کہ تمہیں آ لیا گیا تمہیں گھیر لیا گیا پس میں بھی وہی آدمی ہوں وہی آدمی ہوں وہی آدمی ہوں۔
سہل بن سعد سے تین روایات جو مختلف سندوں سے مروی ہیں ان سب کا مضمون بنفسہ وہی ہے جو کہ گزشتہ روایات میں ذکر ہو چکا۔
عبداللہ بن بریدہ اپنے والد نے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ میں اور قیامت اکٹھے بھیجے گئے ہیں اور قریب ہے کہ قیامت مجھ پر سبقت کر جائے۔
المستورد بن شداد الفہری نبی کریمﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میں قیامت کے بلکل قریب بھیجا گیا ہوں اور میں نے اس پر صرف اتنی سبقت کی ہے جتنا کہ اس (وسطی) انگلی نے اس (انگشت شہادت) پر سبقت حاصل کی ہے اور راوی حدیث ابو عبداللہ نے دونو انگلیوں کو جمع کر کے کیفیت بیان کی۔
ابو جبیرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں قیامت کے ساتھ ساتھ اس طرح مبعوث ہوا ہوں جس طرح کہ یہ دونوں انگلیاں اور وسطی اور انگشت شہادت کے ساتھ ارشاد فرمایا( یعنی جس طرح وسطی انگلی کو انگشت شہادت پر تقدم حاصل ہے۔ اسی طرح مجھے بھی قیامت پر تقدم حاصل ہے۔
ابو جبیرہ مشائخ انصار سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ وہ فرماتے تھے میں اور قیامت اس طرح ہیں علامہ طبری کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد ہمارے استاد نے انگشت شہادت کو وسطی انگلی کے ساتھ ملا کر دکھایا اور فرمایا ہ اس طرح کہ اس طرح خم کرنے میں دونوں انگلیوں کے معمولی کے معمولی فرق کی طرف اشارہ ہے۔

حاصل بحث :

علامہ طبریؒ فرماتے کہ :
یہ بات گذشتہ روایات صحیحہ سے ثابت ہو چکی ہے اس امت کے حصے میں بقیہ امم کی نسبت صرف اتنا وقت آیا ہے جتنا کہ عصر و مغرب کے درمیان ہوتا ہے۔
اس مضمون کو نبی کریمﷺ نے مختلف الفاظ و انداز میں تعبیر فرمایا ہے جیسا کہ ماقبل میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہو چکا۔ مثلاً بعضج روایات میں فرمایا کہ دنیا کی باقی عمر گزری ہوئی عمر کے مقابلہ میں صرف اتنی رہ گئی ہے جتنا کہ تمہارا یہ دن گزرے ہوئے دن کہ نسبت باقی ہے اور یہ بات بعد نماز عصر ارشاد فرمائی تھی۔ کہیں اس مضمون کو اس طرح تعبیر فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں اور انگشت شہادت اور درمیانی کو ملا کر دکھایا۔ کہیں فرمایا کہ میں قیامت سے صرف اس قدر مقدم و سابق ہوں۔
حاصل ان سب کا یہی ہے کہ اس امت کی مجموعی عمر عصر و مغرب کے درمیانی وقت کے بقدر ہے لہٰذا اب یہ ثابت کرنا ہے کہ عصر و مغرب کے درمیانی وقت کو کل یوم کے ساتھ کیا نسبت ہے اور یہ کل کتنی مدت بنتی ہے۔
سو یہ عمر بلکل بدیہی ہے کہ یوم کی ابتداء طلوع فجر سے اور انتہا ٖغروب آفتاب پر ہوتی ہے اور عصر کا اوسط وقت اس وقت ہوتا ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو جائے اور یہ وقت غروب شمس تک کل یوم کا نصف سبع ہوتا ہے۔
اب اگر دنیا کی مجموعی عمر کو ایک یوم قرار دیا جائے جیسا کہ گذشتہ احادیث میں اس کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور اس یوم کی مقدار سات ہزار سال فرض کی جائے جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے تو اس یوم کا نصف سبع پانچ سو سال نکلتا ہے۔
اور یہ وہی مقدار ہے جو حضرت ابو ثعلبہؓ کی روایت میں وارد ہوئی ہے اس سے سند صحیح کے ساتھ مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اس امت کو میں نصف یوم سے پہلے عاجز نہیں کروں گا (یعنی نصف یوم سے پہلے اس کو ختم نہیں کروں گا)) اور یوم کی مقدار آخرت کے حساب سے ایک ہزار سال ہے لہٰذا وہ نصف یوم پانچ سو سال کا ہوا۔
ابو ثعلبہؓ کی اس روایت کے مطابق جب اس امت کی مجموعی عمر پانچ سو سال ہے تو گذشتہ امتوں کی کل عمر چھ ہزار پانچ سو سال ہوئی اور مجموعہ سات ہزار سال ہوا اور یہی ابن عباسؓ کا قول ہے کہ الدنیا حصقه من جمع الاخرۃ سبقه آلاف سنه معلوم ہوا کہ ابن عباسؓ کا قول احادیث سابقہ کے زیادہ اشبہ و اقرب ہے یہ تمام تر بحث اس قول کے مطابق تھی جو ہمارے نزدیک زیادہ صواب و اثبت ہے اس قول کی درستگی ان دلائل و شواہد پر مبنی ہے جو کہ ہم نے ما قبل میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیے ہیں۔
اور دوسرا قول جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی کل عمر چھ ہزار سال ہے یہ بھی بے اصل نہیں بلکہ حدیث سے ثابت ہے اگر حدیث سنداً صحیح ثابت ہو جائے تو ہم اس قول کو کسی اور طرح رد نہیں کریں گے بلکہ ثابت بالحدیث مانیں گے۔
سو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حقب اسی سال کا ہوتا ہے ان سالوں کا ایک دن مقدار دنیا کے سو سال کے برابر ہے۔ پس اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دنیا کہ کل عمر چھ ہزار سال ہے اور وہ اس طرح کہ آخرت کا ایک دن ایک ہزار سال کا ہوتا ہے اور اسی کو سدس قرار دیا گیا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ مدت دنیا چھ ہزار سال ہے۔

مدت دنیا

دیگر اقوام کے خیالات

یہود : یہود نے دعوی کیا تھا کہ آدمؑ سے لے کر ہجرت نبوی تک کل مدت دنیا جو ان کے نزدیک ثابت اور موجودہ نسخہ توارت کے موافق ہے وہ چار ہزار چھ سو بیالیس سال ہے اور یہود اسی کے موافق ایک ایک آدمی کی ولادت اور ایک ایک نبی کی بعثت اور ان کی وفات کا ذکر کرتے ہیں ۔ ہم عنقریب انشاء اللہ تعالی اس کی تفصیل ذکر کریں گے بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سی تفصیلات جن کو علماء اہل کتاب اور دیگر اہل تاریخ نے بیان کیا ہے ذکر کریں گے۔
نصاریٰ : اس کے برعکس یونان کے نصاریٰ نے دعوی کیا کہ یہود اپنے مذکورہ قول اور دعوی میں بالکل جھوٹے ہیں ۔ بلکہ تخلیق آدم سے ہجرت نبوت تک کل مدت دنیا کے بارے میں صحیح قول جو تورات کے موافق ہے وہ پانچ ہزار نو سو بانوے سال ہے اور نصاریٰ اسی کے موافق ہر نبی اور بادشاہ کا زمانہ اور ولادت و وفات وغیرہ کی تفصیلات بیان کرتے ہیں ۔ ان یہود نے حضرت عیسیٰؑ کا زمانہ نبوت اور نصاریٰ کی تاریخ جو ولادت عیسیٰؑ کے حالات صفات اور بعثت کا وقت وغیرہ سب کچھ تورات میں لکھا ہوا ہے لہذا ان کا انکار کرنا کذب و خیانت کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جس شخصیت کے حالات وصفات اور ولادت و بعثت تو رات میں مذکور ہیں جن کو نصاری حضرت عیسیٰؑ قرار دیتے ہیں یہود کے نظریے کے موافق وہ ابھی تک آئے ہی نہیں اور وہ ان کی ولادت و بعثت کے زمانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ علامہ طبری فرماتے ہیں کہ یہود جس شخص کا انتظار کر رہے ہیں اور بزعم خویش دعوی کرتے ہیں کہ اس کی صفات تو رات میں مذکور ہیں وہ در حقیقت دجال لعین ہے جس کی صفات نبی کریمﷺ نے اس امت کے لیے بیان فرمائیں اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کے اکثر متبعین یہود ہوں گے پس اگر وہ شخص عبداللہ بن صیاد ہو ( جیسا کہ بعض روایات اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں ) وہ یقینا یہودی نسل سے ہے۔
مجوس : مجوس کا کہنا ہے کہ جیومرت بادشاہ سے لے کر ہجرت نبویﷺ تک کل مدت تیس ہزار ایک سو انتالیس سال ہے لیکن وہ اس بادشاہ کا کوئی نسب نامہ ذکر نہیں کرتے کہ جس سے اس کے ماقبل پر روشنی پڑے بلکہ دعوی کرتے ہیں کہ جیومرت ہی ابوالبشر آدم علیہ اسلام ہیں ۔
اہل فارس : علامہ طبری فرماتے ہیں کہ اہل تاریخ کے جیومرت نامی بادشاہ کے بارے میں مختلف اقوال ہیں : (1) بعض تو اس کے قائل ہیں جو کہ مجوس نے کہا ۔ (۲) اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں حام بن یافث بن نوح ( یعنی حضرت نوح علیہ السلام ) کے پوتے ہیں انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی بہت خدمت گزاری کی اور تادم آخر ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کو سعادت مندی سمجھا سو حضرت نوح علیہ السلام نے ان کے لیے طویل حیات روئے زمین کی بادشاہت، دشمنوں کے خلاف آسمانی مدد کی دعا فرمائی اور یہ بھی کہ ان کی اولاد میں یہ سلسلہ دائمی طور پر جاری رہے پس اللہ تعالی نے یہ دعا قبول فرمائی اور جیومرت ( یعنی جامر بن یافث بن نوح ) کو روئے زمین کی بادشاہت ملی اور بادشاہت کے ملنے کے بعد ان کو آدم کہا جانے لگا۔ اور یہ ہی ابو الفرس (یعنی اہل فارس کے جدا مجد ) ہیں ان کی اولاد میں بھی نسل در نسل یہ بادشاہت چلی یہاں تک کہ مسلمان شاہ فارس کے شہروں میں داخل ہوئے اور اہل اسلام کو ان پر غلبہ حاصل ہوا تو حکومت و با دشاہت ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ اور بھی اقوال ہیں جن کو ہم انشاء اللہ عنقریب بادشاہوں کی تاریخ میں ذکر کریں گے۔ دنیا کب وجود میں آئی : اول: ہم اس سے پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ زمانہ لیل و نہار کی ساعات و گھڑیوں کا نام ہے اور لیل و نہار در حقیقت شمس و قمر کے اپنے محور میں سفر کی مخصوص گردش کا نام ہے جیسا کہ حق تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں۔ سورج اور چاند کی منزلیں : ان کے لیے ایک نشانی رات ہے ہم اس پر سے دن کھینچ لیتے ہیں پس وہ اندھیرے میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور سورج اپنی قرارگاه ( زمانی و مکانی ) کی طرف چلتا ہے اور یہ زبردست و با خبر ذات کا مقرر کردہ نظام ہے اور چاند اس کے سفر کی ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں یہاں تک کہ وہ (آخر میں ) کھجور کی پرانی شاخ کے مثل ہو جاتا ہے۔ نہ سورج کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت کر سکتی ہے اور ہر ایک (یعنی چاند سورج ) اپنے محور میں سفر کر رہا ہے ۔

(سورۃ یاسین آیت نمبر ۳۷ تا ۴۰)

پس جب ہم نے زمانے کی تعریف لیل و نہار کی ساعات سے کی اور لیل و نہار چاند و سورج کے اپنے محور میں مخصوص مسافت طے کرنے کا نام ہے تو اس سے یقینی طور پر بات معلوم ہو گئی کہ زمانہ میں حدوث و فنا ہے اور لیل و نہار میں بھی حدوث وفتا ہے اور ان کا محدث ( یعنی فنا کرنے والا ) اللہ تعالیٰ ہے جس نے ان تمام کو تنہا پیدا کیا ارشاد خداوندی ہے : وہی ذات ہے جس نے دن اور رات اور سورج و چاند کو پیدا فرمایا اور ہر ایک اپنے محور میں گردش کر رہا ہے۔


زمانہ : تاریخ الطبری جلد اول حصہ اول

زمانہ

علامہ الطبری فرماتے ہیں کہ :
زمانہ دن و رات کے دورانیہ میں گزرنے والی ساعت اور گھڑیوں کا نام ہے اور کبھی زمانے کی تعریف موت سے کی جاتی ہے خواہ طویل ہو یا مختصر۔
اہل عرب کے اس قول میں مزید وضاحت ہوتی ہے : اتیتک زمان الحجاج امیر (میں تمہارے پاس حجاج امیر کے زمانے میں آیا)
یعنی جس وقت حجاج امیر تھا اس وقت میرا آنا ہوا۔ اسی طرح ایک اور قول ہے۔ اتیتک زمان العرام (میں تمہارے پاس پھلوں کو توڑنے کے زمانے میں آیا)
اس مقولہ میں زمان العرام سے مراد وقت العرام ہے یعنی پھلوں کو توڑے جانے کا وقت۔
خلاصہ یہ کہ زمانہ وقت کا نام ہے جیسا کہ دونوں اقوال میں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ پھر زمان گو مفرد ہے اور اس کا اطلاق ابتداء سے انتہاء تک جمیع وقت پر ہوتا ہے۔ لیکن وقت کے اجزاء و حصص میں سے ہر ہر جز اور حصے کو مستقل قرار دے کر اس کی جمع بھی لائی جاتی ہے۔ جیسے اہل عرب کا یہ قول اتیتک زمان الحجاج امیر اس مقولہ میں حجاج کے زمانہ و امارت کے ہر ہر وقت کو الگ الگ زمانہ قرار دیا اور اسی اعتبار سے اس کی جمع ازمان لائی گئی ہے۔ جیسا کہ شاعر کا شعر ہے‌

جاء الشتاء وقمیصی اخلاق شراذم یضحک منه التواق

ترجمہ:سردی آ چکی ہے اس حال میں کہ میری قمیض پرانی ہے جو کہ چیتھڑوں کی شکل میں ہے جس کی وجہ سے تواق ہنستا ہے
اس شعر میں قمیض کے لیے اخلاق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ شاعر کا مقصد قمیض کے ہر ٹکڑے اور ہر چیتھڑے کے لیے اخلاق کے وصف کو بیان کرنا ہے لیکن اس کے مجوعہ کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات شئے کے اجزاء و حصص پر بولے جانے والے لفظ کے مجموعہ پر بھی جمع کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہاں زمانے کی مثال لیجیے۔ گزشتہ مثالوں میں زمان اور زمین دو لفظ استعمال ہوئے ہیں یہ دونوں اس کے ہم معنی ہیں۔ یہ شعر اس کا مؤید ہے:

و کنت امرأ زمنا بالعرق عفیف المناخ طویل الفتن

ترجمہ:میں قیام عراق کے زمانے میں پاکیزہ ٹھکانہ رکھنے والا اور عفت سے متصف مرد تھا۔
یہاں زمن بغیر الف کے واقع ہوا ہے اس سے معلوم ہوا کہ دونوں لفظ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ تواق شاعر کے بیٹے کا نام ہے۔

مقدمہ : تاریخ طبری

اول آخر حمد الٰہی

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو ہر شے سے پہلے تھا اور ہر چیز کے بعد بھی ہو گا وہ ہمیشہ رہنے والی ذات ہے اس پر کبھی زوال نہیں اور وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے اس نے مخلوقات بغیر کسی نمونہ کو دیکھے پیدا کیا۔وہ تن تنہا اور اکیلا اور عدد سے پاک ہے وہ ہر چیز کے بعد بھی باقی رہے۔ گا اس کی بقا کی نہ کوئی حد ہے اور انتہا۔ تمام تر بڑائی اور عظمت اسی کے لیے ہے اور اسی کے لیے جمالو کمال۔ ہر شے پر ہر قسم کا غلبہ اور تصرف اسی کو سزاوار ہے۔ بادشاہت اور ہر طرح کی قدرت اس کے پاس ہے وہ اپنی بادشاہت میں کسی بھی شریک کی شراکت سے پاک ہے۔ وہ اپنی یکتائی میں بھی شراکت سے پاک ہے۔ وہ اس سے بھی پاک کہ اس کی تدابیر اور تصرفات میں کوئی اس کا مددگار ہو یا اس پر غالب ہو۔ وہ اولاد اور بیوی ہر طرح کے عیب سے پاک ہے۔ ہماری عقل اس ذات احاطہ نہیں کر سکتی اور نہ ہی کائنات کے کناروں میں اس کو سمو سکتے ہیں۔ ہماری آنکھیں اس کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتیں جبکہ وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ وہ انتہائی باریک بین اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ میں اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں اور میں اللہ سے ایسے قول و عمل اور ہدایت کا طلب گار ہوں جو مجھے اس کے قرب سے نواز دے اور اسکو مجھ سے راضی کر دے اور میں اس پر صدق دل سے ایمان لاتا ہوں اور اس کی وحدانیت اور بزرگی کو اس کے لیے خالص قرار دیتا ہوں۔