زمانہ : تاریخ الطبری جلد اول حصہ اول

زمانہ

علامہ الطبری فرماتے ہیں کہ :
زمانہ دن و رات کے دورانیہ میں گزرنے والی ساعت اور گھڑیوں کا نام ہے اور کبھی زمانے کی تعریف موت سے کی جاتی ہے خواہ طویل ہو یا مختصر۔
اہل عرب کے اس قول میں مزید وضاحت ہوتی ہے : اتیتک زمان الحجاج امیر (میں تمہارے پاس حجاج امیر کے زمانے میں آیا)
یعنی جس وقت حجاج امیر تھا اس وقت میرا آنا ہوا۔ اسی طرح ایک اور قول ہے۔ اتیتک زمان العرام (میں تمہارے پاس پھلوں کو توڑنے کے زمانے میں آیا)
اس مقولہ میں زمان العرام سے مراد وقت العرام ہے یعنی پھلوں کو توڑے جانے کا وقت۔
خلاصہ یہ کہ زمانہ وقت کا نام ہے جیسا کہ دونوں اقوال میں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ پھر زمان گو مفرد ہے اور اس کا اطلاق ابتداء سے انتہاء تک جمیع وقت پر ہوتا ہے۔ لیکن وقت کے اجزاء و حصص میں سے ہر ہر جز اور حصے کو مستقل قرار دے کر اس کی جمع بھی لائی جاتی ہے۔ جیسے اہل عرب کا یہ قول اتیتک زمان الحجاج امیر اس مقولہ میں حجاج کے زمانہ و امارت کے ہر ہر وقت کو الگ الگ زمانہ قرار دیا اور اسی اعتبار سے اس کی جمع ازمان لائی گئی ہے۔ جیسا کہ شاعر کا شعر ہے‌

جاء الشتاء وقمیصی اخلاق شراذم یضحک منه التواق

ترجمہ:سردی آ چکی ہے اس حال میں کہ میری قمیض پرانی ہے جو کہ چیتھڑوں کی شکل میں ہے جس کی وجہ سے تواق ہنستا ہے
اس شعر میں قمیض کے لیے اخلاق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ شاعر کا مقصد قمیض کے ہر ٹکڑے اور ہر چیتھڑے کے لیے اخلاق کے وصف کو بیان کرنا ہے لیکن اس کے مجوعہ کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات شئے کے اجزاء و حصص پر بولے جانے والے لفظ کے مجموعہ پر بھی جمع کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہاں زمانے کی مثال لیجیے۔ گزشتہ مثالوں میں زمان اور زمین دو لفظ استعمال ہوئے ہیں یہ دونوں اس کے ہم معنی ہیں۔ یہ شعر اس کا مؤید ہے:

و کنت امرأ زمنا بالعرق عفیف المناخ طویل الفتن

ترجمہ:میں قیام عراق کے زمانے میں پاکیزہ ٹھکانہ رکھنے والا اور عفت سے متصف مرد تھا۔
یہاں زمن بغیر الف کے واقع ہوا ہے اس سے معلوم ہوا کہ دونوں لفظ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ تواق شاعر کے بیٹے کا نام ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں