خلیل الرحمٰن قمر کی اردو شاعری

شعر


بخش دے آنکھ کے محور کو نیا ظرف تلاش
منزلیں مجھ کو نہ دے ڈھونڈنے والا کر دے
آج کے دن کا گھٹا ٹوپ اندھیرا تو ٹلے
کل کسی شب سے کہیں گے کہ اجالا کر دے

خلیل الرحمٰن قمر

شعر


ایک چہرے سے اترتی ہیں نقابیں کتنی
لوگ کتنے ہمیں اک شخص میں مل جاتے ہیں
وقت بدلے گا تو اس بار میں پوچھوں گا اسے
تم بدلتے ہو تو کیوں لوگ بدل جاتے ہیں

خلیل الرحمٰن قمر

شعر


تم وعدہ کرو شان سے دفناو گے مجھ کو
میں تیری قسم پورے تکبر سے مروں گا

خلیل الرحمٰن قمر

غزل


اشکِ ناداں سے کہو بعد میں پچھتائیں گے
آپ گر کر میری آنکھوں سے کدھر جائیں گے
اپنے لفظوں کو تکلم سے گرا کر جانا
اپنے لہجے کی تھکاوٹ بھی بکھر جائے گی
تم سے لے جائیں گے ہم چھین کے وعدے اپنے
اب تو قسموں کی صداقت سے بھی ڈر جائیں گے
اک تیرا گھر تھا میری حد مسافت لیکن
اب یہ سوچا ہے کہ ہم حد سے گزر جائیں گے
اپنے افکار جلا ڈالیں گے کاغذ کاغذ
سوچ مر جائے گی تو ہم آپ بھی مر جائیں گے
اس سے پہلے کہ جدائی کی خبر تم سے ملے
ہم نے سوچا ہے کہ ہم تم سے بچھڑ جائیں گے

خلیل الرحمٰن قمر


غزل

یہ لوح عشق پہ لکھا ہے تیرے شہر کے لوگ
وفا سے جیت بھی جائیں تو ہار جائیں گے
وہ جن کے ہاتھ میں کاغذ کی کشتیاں ہوں گی
سنا ہے چند وہی لوگ پار جائیں گے
کتابِ ظرف محبت پہ ہاتھ رکھ کے کہو
سوال جان کا آیا تو وار جائیں گے

خلیل الرحمٰن قمر

غزل


تمہارا آخری میسیج میرے انباکس میں رکھا ہے
اس میں تم نے لکھا ہے مجھے اب بھول جانا تم
جدائی پھانسی بھی ہو تو صبر سے جھول جانا تم
مجھے اپنی قسم دی ہے میری تو جان لے لی ہے
مگر میں جان دے کر بھی آخر تک نبھاوں گا
میں تجھ کو بھول جاوں گا ، میں تجھ کو بھول جاوں گا
مگر تم سے فقط میری زرا سی یہ گزارش ہے
میری آنکھوں میں مت رہنا میرے دل سے اتر جانا
بھلانے بھول جانے میں تجھے میں یاد کرلوں تو
مجھے تم یاد نہ آنا کبھی بھی یاد نہ آنا

خلیل الرحمٰن قمر

غزل


خواب پلکوں کی ہتھیلی پہ چُنے رہتے ہیں
کون جانے وہ کبھی نیند چرانے آئے
مجھ پہ اترے میرے الہام کی بارش بن کر
مجھ کو اک بوند سمندر میں چھپانے آئے
جب میں سنوروں تو وہ گلنار کرے میرا تبسم
جب میں ہنس دوں تو وہ غنچہ سا چٹخنا چاہے
جب میں تنہا ہوں وہ میرا ہاتھ پکڑ لے آ کر
جب میں چپ ہوں تو وہ بادل سا برسنا چاہے
میری برسوں کی اداسی کو صلہ کچھ تو ملے
اس سے کہہ دو وہ میرا قرض چکانے آئے
وہ میرے کانپتے ہونٹوں کی صدائیں سن لے
یا میرے ضبط کو اظہار کا لہجہ دے دے
یا مجھے توڑ دے اک گہری نظر سے چھو کر
یا مجھے چوم کے تخلیق کو سانچہ دے دے
میری ترتیب اُٹھا جائے خدا کی مانند
اور مِٹ جاؤں تو پھر مجھ کو بنانے آئے

خلیل الرحمٰن قمر

غزل


آنکھ میں نم تک آ پہنچا ہوں اُس کے غم تک آ پہنچا ہوں
پہلی بار محبت کی تھی آخری دم تک آ پہنچا ہوں
اُس کے درد سے فیض ملا ہے اذنِ قلم تک آ پہنچا ہوں
ہاتھ بڑھا کر چھونے لگا ہوں دستِ عَلم تک آ پہنچا ہوں
سانسوں میں سنگیت نہیں اب سُر سے سَم تک آ پہنچا ہوں
مُلکِ عدم میں رہتے ہو ناں راہِ عدم تک آ پہنچا ہوں
اگلے قدم پر تم سے ملوں گا اگلے قدم تک آ پہنچا ہوں

خلیل الرحمٰن قمر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں