مقدمہ : تاریخ طبری

اول آخر حمد الٰہی

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو ہر شے سے پہلے تھا اور ہر چیز کے بعد بھی ہو گا وہ ہمیشہ رہنے والی ذات ہے اس پر کبھی زوال نہیں اور وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے اس نے مخلوقات بغیر کسی نمونہ کو دیکھے پیدا کیا۔وہ تن تنہا اور اکیلا اور عدد سے پاک ہے وہ ہر چیز کے بعد بھی باقی رہے۔ گا اس کی بقا کی نہ کوئی حد ہے اور انتہا۔ تمام تر بڑائی اور عظمت اسی کے لیے ہے اور اسی کے لیے جمالو کمال۔ ہر شے پر ہر قسم کا غلبہ اور تصرف اسی کو سزاوار ہے۔ بادشاہت اور ہر طرح کی قدرت اس کے پاس ہے وہ اپنی بادشاہت میں کسی بھی شریک کی شراکت سے پاک ہے۔ وہ اپنی یکتائی میں بھی شراکت سے پاک ہے۔ وہ اس سے بھی پاک کہ اس کی تدابیر اور تصرفات میں کوئی اس کا مددگار ہو یا اس پر غالب ہو۔ وہ اولاد اور بیوی ہر طرح کے عیب سے پاک ہے۔ ہماری عقل اس ذات احاطہ نہیں کر سکتی اور نہ ہی کائنات کے کناروں میں اس کو سمو سکتے ہیں۔ ہماری آنکھیں اس کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتیں جبکہ وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ وہ انتہائی باریک بین اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ میں اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں اور میں اللہ سے ایسے قول و عمل اور ہدایت کا طلب گار ہوں جو مجھے اس کے قرب سے نواز دے اور اسکو مجھ سے راضی کر دے اور میں اس پر صدق دل سے ایمان لاتا ہوں اور اس کی وحدانیت اور بزرگی کو اس کے لیے خالص قرار دیتا ہوں۔

مولا یا صل و سلم

اور میں اس بات کی گوہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اس کے شریف النفس بندے اور انتہائی امین پیغمبر ہیں۔ اللہ جل شانہٗ نے انہیں رسالت و نبوت کے لیے منتخب کیا ہے اور وحی کے اعزاز سے مشرف فرما کر خلق خدا کی طرف داعی بنا کر بھیجا تاکہ وہ مخلوق کو اس کی کی عبادت و اطاعت کی طرف بلائیں۔پس انہوں نے علی الاعلان اللہ تعالٰی کے احکامات کی دعوت دی اور اس راستہ میں پیش آنے والی تکالیف اور مشقت کو برداشت کیا اور خلق خدا کے ساتھ خیر خواہی کا حق ادا کیا اور اس بارِ امانت کی ادائیگی میں نہ کوتاہی کی اور نہ کوئی کسر چھوڑی اور آخر کار اللہ تعالٰی کی طرف سے انہیں بلاوا آگیا‬‬‬

زمین و آسمان کی تخلیق

بلا شبہ اللہ تعالٰی نے جس کی شان بہت بلند اور جس کا نام انتہائی پاکیزہ ہے ۔ تمام مخلوقات کو بغیر کسی ذاتی غرض کے پیدا فرمایا۔ مخلوق کو پیدا کرنے میں اس کی کوئی غرض شامل نہیں ، محض اپنے فضل و مہربانی سے اس نے کائنات ارضی و سماوی کو وجود بخشا اور پھر ان میں سے کچھ مخلوق کو مکلف ٹھہراتے ہوئے اچھے اور برے کی تمیزسکھائی اور ان سے اپنی عبادت و فرمانبرداری کا امتحان بھی لیا تاکہ ان میں سے جو عبادت و اطاعت میں کامیاب ہو اس حمد و سپاس بجا لائے تو اللہ اس پر اپنی نعمتوں کا اضافہ کرے اس پر اپنے فضل و احسان میں زیادتی فرمائے اور نوازشات فرمائے۔ اللہ تعالٰی کا قرآن مجید میں ارشاد ہے
”میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ میری بندگی کریں۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں اللہ تو خود رزاق ہے،بڑی قوت والا اور زبر دست“۔

(سورۃ الذاریات آیت56۔57)

ان تمام مخلوقات کو پیدا کرنے کے باوجود اس کی سلطنت و بادشاہی میں ذرہ برابر بھی اضافہ نہ ہوا اور ین سب کو نیست و نابود کر دےتب بھی اس کی سلطنت اور بادشاہی میں بال برابر بھی کمی نہ آئے گی۔ اس لیے کہ تغیرات احوال اس پر اثر انداز نہیں ہوتے غمی اور خوشی کی کیفیات اس پر انداز نہیں ہوتیں گردش ایام اس کے زامنہ حکومت میں کمی نہیں کر سکتی کیونکہ وہ خود ہی زمانہ ہے ارو ہر طرح کی گردش فلک کا مالک و خالق ہے۔ اس کے فضل و احسان اور نوازشات سے سب ہی مستفید ہوتے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے لوگوں کو سننے کے لیے کان دیکھنے کو آنکھیں اور سوجھ بوجھ کے لیے قلوب سے نوازا اور انہیں عقل سلیم کے قیمتی سمایہ سے نوازا جس کے ذریعہ وہ حقو باطل کے درمیان تمیز کرتے اور اپنے نفع نقصان کو پہچانتے ہیں۔ اللہ نے انسانوں کے لیے زمین کو بچھایا تاکہ وہ اس کت صاف اورواضح راستوں پر چلیں اور آسمان کو محفوظ چھت بنایا اور اسے انتہائی بلند کیا اور پھر اس میں سے موسلا دھار بارش برسائی اور ایک مقررہ مقدار میں رزق اتارا اور اپنی مخلوق کے فائدہ کے لیے چاند اور سورج آگے پیچے دوڑایا جس کے نتیجہ میں دن اور رات نمودار ہوتے ہیں۔ اس نے رات کو لوگوں کے لیے لباس بنایا اور دن کو معاش کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ چاند سورج کا یہ طلوع و غروب اور دن رات کا آنا جانا اللہ تعالٰی کا اپنے بندوں پر ؑظیم احسان ہے۔ اللہ تعالٰی کلام مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
”دیکھو ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے رات کی نشانی کو ہم نے بے نور بنایا اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو اسی طرح ہم نے ہر چیز کو الگ الگ ممیز کر رکھا ہے“۔

(سورۃ بنی اسرائیل آیت 12)

اس کے علاوہ دن اور رات سے دن اور رات سے فرائض دین کی ادئیگی کے اوقات بھی معلوم ہوتے ہیں جن کا تعلق دن اور رات کی گھڑیوں اور ماہ و سال سے ہے مثلاً نماز پنجگانہ ، زکٰوۃ ، حج ، روزے وغیرہ۔ اسی طرح لین دین کے معاملات قرض یا دیگر حقوق کی ادائیگی کا وقت جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے
”اے نبیﷺ لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کے تعین کی اور حج علامتیں ہیں “۔

(سورۃ البقرہ آیت 189)

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالٰی ہے :
وہی ہے جس نے سورج کو اجلا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تاکہ تم اس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو ۔ اللہ نے یہ سب کچھ برحق ہی پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ یقیناً رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ہر چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمان میں پیدا کی ہے،نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو(غلط بینی اور غلط روی سے) بچنا چاہتے ہیں۔

(سورۃ یونس آیت 5-6)

یہ تمام تر انعامات محض اللہ تعالٰی کا فضلو احسان ہیں اور بندہ جب شکر گزاری اور احسان مندی کے جذبات کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اپنی نوازشات میں مزید اضافہ فرما دیتے ہیں۔
خود قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے یہ وعدہ فرمایا ہے :
اور یاد رکھو تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو تو میری سزا بہت سخت ہے۔

(سورۃ ابراہیم آیت 7)

چناچہ بنو آدم کی ایک کثیر جماعت نے شکر گزاری کا راستہ اختیار کیا تو اللہ تعالٰی نے حسب وعدۂ سابقہ اور ابتدائی نعمتوں پر مزید اضآفہ فرما دیا۔ یہ تو صرف دنیاوی نعمتوں کا تھا لیکن نعمتوں بھری جنت میں داخلہ اور وہاں کی دائمی نعمتیں ان شکر گزار بندوں کے وہاں پہنچنے پر رکھی گئی ہیں۔
اسی طرح ایک کثیر جماعت نے کفران نعمت کا راستہ اختیار کیا بجائے اللہ تعالٰی کی عبادت کے غیروں کی چوکھٹ پر سر جھکایا تو اللہ تعالٰی نے نہ صرف ان کو دی گئی نعمتیں چھین لیں بلکہ ان پر مہلک عذاب بھی نازل فرمایا جو نہ صف دردناک تھا بلکہ دوسروں کے لیے نشان عبرت بھی بنا۔ انہی ناشکروں میں سے اللہ تعالٰی نے دنیاوی نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا جسے وہ اللہ کے ہاں اپنی قبولیت کی سند سمجھ بیٹھے حالانکہ وہ خدا کی طرف سے دی گئی ڈھیل تھی پس اللہ تعلٰی نے ان کے لیے آخرت میان سخت عذاب تیار کر رکھا ہے جسے بھگتنا ان کا مقدر ٹھہر چکا ہے۔
اے اللہ ہم تیری پناہ چاہتے ہیں عذاب میں اور ہمیں گمراہوں کا ساتھی نہ بنا۔ ہم اللہ تعالٰی کی پناہ چاہتے ہیں ایسے عمل سے جو اس کی ناراضگی کا سبب بنے آمین یا رب العٰلمین۔
میں اپنی اس کتاب میں ہر زمانے کے بادشاہوں کا تذکرہ کروں گا اس کے علاوہ سابقہ اقوام کے عروج و زوال کی داستان اور ان کے جملہ حالات و واقعات اور ان پر ہونے والے فضل و انعام کا بھی تذکرہ کروں گا میں اپنی اس کتاب میں تین مختلف گروہوں کے انداز میں یہ واقعات لکھوں گا۔

پہلا گروہ

وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالٰی کے انعامات کی قدرجانی اور شکر گزار ہوئے اور انبیاءؑ اور اور ان کے سچے پیروکاروں کے نقش قدم پر چلےجس کے نتیجہ میںدنیا میں بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے فضل و انعام میں اضافہ ہوا اور آخرت میں بھی ان کے لیے جنت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں موجود ہیں۔

دوسرا گروہ

وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی اس کی نعمتوں کی ناقدری کی اور اس کے ناشکرے ہوئے اور نہ صرف انبیاء کی نافرمانی کی بلکہ ان کا مقابلہ کیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی کی طرف سے دنیا ہی میں ان پر دردناک عذاب نازل ہوا اور وہ دوسروں کے لیے عبرت جا نشان بنا دیئے گئے اور آخرت میں بھی ان کے لیے مزید عذاب و سزا کے لیے جہنم تیار ہے۔

تیسرا گروہ

وہ لوگ جن کی ناشکری اور نافرمانی کے نتیجہ میں اس دنیا میں ان پر عذاب خداوندی نازل نہ ہوا بلکہ انہیں خوب ڈھیل اور مہلت دی گئی تاکہ آخرت میں وہ پوری طرح عذاب کے مستحق ہو جائیں ان کی تمام بداعمالیوں اور بد افعالیوں کا عذاب انیہیں اکٹھا آخرت میں بھگتنا ہو گا سو یہ گروہ آخرت میں ہی اپنے حصہ کی سزا بھگتے گا۔
میں نہ صرف ان اقوام و امم کا تذکرہ کروں گا بلکہ یہ بھی بتاؤں گا کہ وہ لوگ کس زمانہ میں تھے اور ان کے ساتھ کیا کیا حوادث و وقعات پیش آئے۔ اگرچہ ان تمام کا بیان کرنا انسانی عمر کے بس کی بات نہں اس کے باوجود حتی الامکان بشری حد تک ا کے حالات و واقعات کو اجاگر کرنے کی کوشش کروں گا۔
البتہ اس سے قبل ابتداءً کچھ ایسی چیزیں بیان کروں گا جن کی میں ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ مثلاً زمانے کی ماہیت اس کی مقدار اس کی ابتدا اور انتہا نیز یہ کہ اللہ تعالٰی نے اس سے قبل بھی کچھ چیزوں کو پیدا کیا یا نہیں یہ زمانہ فانی ہے یا نہیں اور اس کی فنا کے بعد کے بعد کوئی چیز سوائے اللہ کے باقی رہے گی یا نہیں۔ زمانے کی تخلیق سے پہلے کیا موجود تھا اور اس کے نیست و نابود ہو جانے کے بعد کیا بچ رہے گا۔
اس کائنات کی ابتدائی کیفیت کیا تھی اور فنا کی کیفیت کیا ہو گی نیز اللہ تعالٰی کے قدیم و لازوال ہونے کا بیان اور اس پر دلائل بھی بیان کیے جائیں گے۔
اپنے مقصد و ارادہ گزشتہ بادشاہوں کی تاریخ انبیاء و رسل کے ادوار ان کی عمریں ان کے خلفاء کے حالات ان کی ولایت کی حدود اور ان کے زمانے میں ہونے والے واقعات و حوادث وغیرہ بیان کرنا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ نبی آخرالزمان ختم الرسل شفیع امم حضرت محمد مصطفیٰﷺ تک آ پہنچے۔ اگر قدرت کی مدد شامل حال رہی اور اللہ تعالٰی نے چاہا اور میری مدد فرمائی تو ان کے آخر میں صحابہ کرامؓ کے حالات، ان کے اسمائے گرامی، نسب نامے، عمریں، وقت وفات اور جگہ جہاں جہاں انہوں نے وفات پائی الغرض اس طرح کے تمام امور کو بیان کیا جائے گا۔ اس کے بعد اسی انداز میں تابعین اور تبع تابعین کا تذکرہ کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ کچھ اضافی معاملات مثلاً احادیث کے قبول و رد کا بیان اور ان لوگاں کا تذکرہ جن کی روایت حدیث میں تعریف کی گئی ہے اور ان کی روایت کو شرف قبولیت حاصل ہوا ہے۔
اسی طرح ان لوگوں کا تذکرہ بھی جن کی رویت حدیث میں مذمت کی گئی ہے اور ان کی روایات کو ترک کیا گیا ہے ان کی نقول کو کمزور اور ان کی حدیث کو کمزور قرار دیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ اسباب و علل جس کی وجہ سے حدیث کو متروک اور ضعیف کہا گیا ہے۔
میں اپنے اس کام میں اللہ تعالٰی ہی سے امداد کا طلبگار ہوں اور اسی کی توفیق کا متلاشی ہوں بے شک گناہ سے بچنے اور نیکی اور نیکی پر قدرت دینے میں وہی حامی و ناصر ہے۔

وصلی اللہ علی محمد نبیه و آله وسلم تسلیما

نوٹ

اس کتاب کو پڑھنے والے کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جو کچھ اس کتاب میں سابقہ تفصیل کے مطابق بیان کیا جائے گا اس کا اصل مواد وہ احادیث و آثار ہیں جو اس مقام پر بیان ہوں گی۔ عقلی دلائل اور فکری استنباط کے نتائج بہت کم اور ضرورت کے مطابق لکھے جائیں گے۔
کیونکہ اخبار گزشتہ اور ماضی کے حوادث کا علم، اس قوم کو جس نے ان کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا صرف خبروں اور بیان دینے والوں کے بیان سے ہی مل سکتا ہے جبکہ ہم استخراج عقلیہ اور استنباط فکریہ کے ساتھ ان حالات کا علم نہیں لگا سکتے۔
لہٰذا ہماری اس کتاب میں کسی روایت کو پڑھنے والا اجنبی یا سننے والا قبیح قرار دے صرف اس بناء پر کہ وہ اس رویت کو درست نہیں سمجھتا تو اسے جان لینا چاہیے کہ ہم نے اپنی طرف سے کوئی ملمع سازی یا رنگ آمیزی نہیں کی بلکہ بعض ناقلین سے وہ ہمیں اسی طرح آ پہنچی ہیں پس ہم نے ان کو اسی طرح آگے لکھ دیا جس طرح ہم تک پہنچی تھیں۔

وما علینا الا البلاغ

ابو جعفر محمد بن جریر الطبریؒ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں