کالج کا ماحول
عشق کا اعلانیہ اظہار ہونا چاہیے
کالجوں میں کھل کھلا کے پیار ہونا چاہیے
ہر جواں کی کوئی دل آرا ضروری ہے یہاں
ہر حسینہ کا کوئی دلدار ہونا چاہیے
کالجوں میں انگلش اردو میتھس اور سائنس کے ساتھ
لو کا اک سبجیکٹ بھی سرکار ہونا چاہیے
لڑکی لڑکے کو بلائے بھائی کہ کر جب کبھی
بھاری جرمانہ اسے ہر بار ہونا چاہیے
بھائی کہنے کے لیے کالج کے ہی فیلوز کیوں
بھائی ان کا گھر کا رشتہ دار ہونا چاہیے
بھائی کہنے کے لیے الطاف بھائی کم ہے کیا
بھائی کا آخر کوئی معیار ہونا چاہیے
اچھلیں کودیں ناچیں گائیں مل کے لڑکے لڑکیاں
جشن یہ اتوار کے اتور ہونا چاہیے
جب کڑی برقعے میں دیکھیں روک کر ہم کہ سکیں
تم کو تو خاتون خانہ دار ہونا چاہیے
جب کریں کڑیوں سے منڈے چھوٹی موٹی چھیڑ چھاڑ
ان کو چھڑنے کے لیے تیار ہونا چاہیے
ووٹ تم دو یا نہ دو لیکن جوانو سوچ لو
کیا مسلماں کا یہی کردار ہونا چاہیے
تم جو جو کچھ کہا ہے میں نے جو جو کچھ سنا
اس پہ سو سو بار استغفار ہونا چاہیے
دور کردے جو ہمیں خالق سے خالق کی قسم
تین ووٹوں سے ہے ہارا خوچہ گیلاؔنی تم آج
ہم نہ کہتا تھا کہ بیگم چار ہونا چاہیے
اختلاف روئت حلال
کچھ کہتے ہیں چاند نہیں نکلا
نکلا نہیں تو کل عید نہیں
چاند اپنی آنکھ سے دیکھا ہے
پشاور میں کوئی کہتا ہے
اے چاند کمیٹی والو تم
کیوں چاند فلک پر ڈھونڈھتے ہو
میرے سامنے والی کھڑکی میں
اک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے
افسوس کمیٹی والوں سے
وہ اکھڑا اکھڑا رہتا ہے
سید سلمان گیلانی
غزل
میری زباں گئی پھسل ہنسی ہنسی میں ایک دن
کہ اس کو کہ دیا چول ہنسی ہنسی میں ایک دن
کسی کی ایک وائف اور کسی ایک بھی نہیں
میں لے اڑا ڈبل ڈبل ہنسی ہنسی میں ایک دن
یہ کہہ کے بھوک کی کمی کا عارضہ ہے آج کل
پراٹھے چھے گئی نگل ہنسی ہنسی میں ایک دن
جو تم نے چپکے چپکے آ کے کان میں ہآؤ کیا
میرا تو دل گیا دہل ہنسی ہنسی میں ایک دن
وہ از رہ مذاق ایک شعر پڑھ کے پھنس گئی
سنا دی میں نے سو غزل ہنسی ہنسی میں ایک دن
لمبوترا سا منہ کلے بھی اونٹ سی ہے ہو بہو
سو میں نے کہ دیا جمل ہنسی ہنسی میں ایک دن
وہ اپنے ڈیل ڈول سے پہاڑ سی لگی مجھے
سو میں نے کہ دیا جبل ہنسی ہنسی میں ایک دن
سید سلمان گیلانی
معشوقہ سے سوال
نہ جانے کیا خطا ہو گئی کہ بدلا ہے موڈ تیرا
نہ سیدھے منہ تو بات کرے میں منتیں ہزار کروں
وہی تو میں دوست تیرا سناتی تھی تو روز جسے
تمہی ہو محبوب میرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں
معشوقہ کا جواب
میرے محبوب تیری جب سے چھنی ہے کرسی
مجھ کو سب باتیں تیری لگنے لگیں اوٹ پٹانگ
اب تیرے پاس نہ کوٹھی ہے نہ بنگلہ ہے نہ کار
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
سید سلمان گیلانی
بٹوے سے اداکاراؤں کی تصاویر برآمد ہونے پر
کرینہ ہو کرشمہ ہو ایشوریہ ہو کہ مادھوری
نہ شک کر دیکھ کر بٹوے میں میرے ان کی تصویریں
میں اس نیت سے ان کو دیکھتا ہوں غور سے بیگم
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
سید سلمان گیلانی
غزل
داتا کے ہم مزار سے آگے نہیں گئے
بریانی کی قطار سے آگے نہیں گئے
سنڈے کے سنڈے جاتے تھے ہم ڈیٹ شیٹ پر
پر چوک یادگار سے آگے نہیں گئے
آیا تھا ہم پہ بھی کبھی بھرپور سا شباب
ہم ہلکے پھلکے پیار سے آگے نہیں گئے
لاہور میں حسینوں کے تھے جلوے کو بہ کو
ہم تھے کہ کوئے یار سے آگے نہیں گئے
وہ دس ہزار مانگتی تھی منہ دکھائی میں
ہم بھی مگر ہزار سے آگے نہیں گئے
سونے کے سٹ کا اس کا تقاضا رہا سدا
ہم ایک نقلی ہار سے آگے نہیں گئے
جی چاہتا تھا ناریوں سے چھیڑ چھاڑ کو
ڈرتے عذاب نار سے آگے نہیں گئے
ڈائریکٹ اس کے رابطے پی ایم کے ساتھ تھے
ہم چودھری نثار سے آگے نہیں گئے
گیلاؔنی اس کے نیچے ہے بی ایم ڈبلیو
ہم اک سوزوکی کار سے آگے نہیں گئے
سید سلمان گیلانی
کُڑیاں ہمارے عہد کی چالاک ہو گئیں
اک شوخ نے تھی پہنی بغیر آستیں کے شرٹ
دیکھا جو ایک شیخ نے لڑکی کا یہ ڈریس
بولے کہ بیٹا ڈینگی کا کچھ ڈر نہیں تجھے
لڑکی یہ سوچتے ہوئے اب نو کہوں کہ یس
بولی نہ پلنے پائیں مری آستیں میں سانپ
میں اس لیے پہنتی ہوں شرٹیں سلیو لیس
سید سلمان گیلانی
غزل
فیشن کی ہے بڑھنے لگی ریس اور زیادہ
کُڑیوں سے ہے مُنڈوں میں یہ کیس اور زیادہ
دو مرلے جگہ مل جو بیٹھی ہے یہ دلہن
لیٹے گی تو گھیرے گی سپیس اور زیادہ
اس شوق میں رخسار پھلاتا ہوں کئی بار
چوڑا میرا ہو جائے یہ فیس اور زیادہ
گھٹ جائے کریموں کا بھی پوڈر کا بھی خرچہ
رخ پر بڑھے داڑھی کی سپیس اور زیادہ
جب شیو تھی تب بھی تھا میں منڈا بڑا سوہنا
سنت نے بڑھا دی ہے گریس اور زیادہ
جب حسن مرا دیکھا تو کرنے لگیں مجھ کو
کچھ لڑکیاں گوگل پہ ٹریس اور زیادہ
سلماؔن تیرے شعر سنے دل نے دعا دی
ہوں چرچے تیرے دیس بہ دیس اور زیادہ
سید سلمان گیلانی
غزل
میں مولوی تو نہیں مولوی نما تو ہوں
نہ دے تو حلوہ مجھے روز فیرنی دے دے
اک اور شادی کا مجھ کو بھی شوق ہے یارب
نہ شاہزادی کوئی دے فقیرنی دے دے
جو ایک دم سے مجھے ایک دم بنا دے وزیر
تو میرے عقد میں ایک ایسی پیرنی دے دے
سید سلمان گیلانی
شعر
معلوم تھا اسے ک ہے میک اپ کا یہ کمال
پھر بھی وہ اس منافقہ جھوٹی پہ مر گیا
دل کا مریض بچ گیا کروا کے سرجری
لیکن بیچارا نرس کی بیوٹی پہ مر گیا
سید سلمان گیلانی
میوزک پسند بکرا
بکرا خریدا قربانی کے لیے
گانوں کی وہ دھن پہ تھا جھومتا بڑا
لے گیا کلیجی کوئی پھیپھرے کوئی
سری، پائے، گردے قصائی لے گیا
دل تھا پسند مجھے میں نے لیا رکھ
بکرے کی آنے لگی غیب سے صدا
اک پردیسی میرا دل لے گیا
جاتے جاتے میٹھا میٹھا غم دے گیا
سید سلمان گیلانی
غزل
کہا بیگم نے انگلش اردو پنجابی زبانوں میں
نہیں لیزی، نکما، ویلا تجھ سا دو جہانوں میں
جو کچھ ابا سے میں لاتی ہو گھر کے خرچ کی خاطر
اڑا دیتے ہو اپنی چائے سگریٹ اور پانوں میں
کہا میں نے میں اک شاعر ہوں اور اقباؔل کا شاہیں
اڑانیں ہیں تخیل کی میرے سات آسمانوں میں
وہ بولی ہاتھ میں چمٹا پکڑ کر چل نکل گھر سے
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
سید سلمان گیلانی
اس نے بزرگ جان کے انکل ہی کہہ دیا
اب اس کے بعد کیا اسے کہتا میں دوستو
جب سوخ و شنگ کہہ دیاچنچل ہی کہہ دیا
سنت سمجھ کے پکڑا ہے میں نے تو یہ عصا
اس نے بزرگ جان کے انکل ہی کہہ دیا
سید سلمان گیلانی
الگ ہے
ڈفرنٹ ہنسی اپنی سمائل ہی الگ ہے
اپنا میری جان سٹائل ہی الگ ہے
اس فون کی جاسوسیاں کرتی رہو بیگم
محبوبہ سے باتوں کا موبائل ہی الگ ہے
سید سلمان گیلانی
غزل
اگر میں لوٹا بنوں بے ضمیر ہو جاوں
تو راتوں رات ہی میں بھی امیر ہو جاوں
اسی امید پہ بدلی ہے پارٹی میں نے
وزیر بن سکوں یا پھر مشیر ہو جاوں
اگر کروں میں صحافت بلیک میلنگ کی
تو جلد صاحب مال کثیر ہو جاوں
دعا کریں کہ میں رہوں چشم نیب سے دور
بنا کے مال کہیں گوشہ گیر ہو جاوں
جگہ جو قدموں میں دے مجھ کو پارٹی لیڈر
حقیر ذرہ ہوں بدر منیر ہو جاوں
وہ کہہ رہا ہے چئیر مین ہوں میں پارٹی کا
ہے جی میں ماں کی طرح بے نظیر ہو جاوں
دعا کو کہ یہ جتنی حسین لڑکیاں ہیں
میری مریدنیاں ہوں میں پیر ہو جاوں
شریف رہ کے میں گیلاؔنی ذرا جو بور ہوا
تو سوچا آج ذرا سا شریر ہو جاوں
سید سلمان گیلانی
غزل
کیوں لیا تھا میرا دل دل مجھے واپس کر دے
چھوڑ یہ روز کی قِل قِل مجھے واپس کر دے
اچھی مس ہے کوئی مس کال نہ میسیج کوئی
اپنی سم لے لے موبائل مجھے واپس کر دے
پی ٹی سی ایل سے کیوں کرتی تھی غیر کو فون
جو ادا میں نے کیے بل مجھے واپس کر دے
لگ گیا ٹل میرا پر ماں تیری راضی نہ ہوئی
یا منا اس کو یا ٹل میرا واپس کر دے
سید سلمان گیلانی
غزل
کل جوں ہی ہوا سویرا میرے بچوں نے مجھ کو گھیرا
ہر بچہ مجھ سے بولا گر ابا ہے تو میرا
فیر بکا منڈی جا ساڈی فرمائش تے
کوئی بکرا چھترا لے آ ساڈی فرمائش تے
نہ گاں وچ حصہ پاویں
یاراں تو بے عزت کراویں
اس سال نہ فیر ٹرخاویں
اٹھ ابا دیر نہ لا ساڈی فرمائش تے
کوئی دنبہ چھترا لے آ ساڈی فرمائش تے
سید سلمان گیلانی
بیٹی
بیگم سے میں پوچھا کوئی میٹھی چیز ہے
حلوے کا اس نے تھال میرے آگے رکھ دیا
بیٹی سے اپنی میں نے کہا میٹھا دو مجھے
جھٹ اس نے اپنا گال میرے آگے رکھ دیا
سید سلمان گیلانی
جوڑوں کا درد
شعرو سخن کی لذت کیا جانے خشک زاہد
نشہ جو گھاس میں ہے گھوڑے ہی جانتے ہیں
شوہر کے دل میں کیا ہے ہر بیوی کو خبر ہے
بیوی کا موڈ شوہر تھوڑے ہی جانتے ہیں
بے زوجگی کے مارے کیا جانے دکھ ہمارے
جوڑوں کا درد کیا ہے جوڑے ہی جانتے ہیں
سید سلمان گیلانی
ہر ٹوپی والے کو مولوی مت سمجھو
سونے کے لیے لازم نہیں کہ پلنگ ہی ہو
میٹرس یا پھر منجا بھی ہو سکتا ہے
ہر ٹوپی والے کو مولوی مت سمجھو
وہ بیچارہ گنجا بھی ہو سکتا ہے
سید سلمان گیلانی
میک اپ
چمک دانتوں کو جیسے پیسٹ یا منجن سے بخشی ہے
بدن کو زیب و زینت شوخ پیراہن نے بخشی ہے
تیرے چہرے کے سارے ٹوئے ٹبوں سے میں واقف ہوں
یہ بیوٹی تو تجھے تیرے بیوٹیشن نے بخشی ہے
سید سلمان گیلانی
سیاسی لوٹے
تیرے جیسا چول کوئی نہیں ہے
کہ باتیں ہیں عمل کوئی نہیں ہے
ہیں اچھے چمچے کڑچھے پر او لوٹے
تیرا نعم البدل کوئی نہیں ہے
سید سلمان گیلانی
لوڈ شیڈنگ کا سیاپا
بھولا نہیں ہوں آج بھی وہ ریل کا سفر
بیٹھا تھا جس میں رات کے میان آخری پہر
گاڑی میں میرے سامنے والی نشست پر
بیٹھی تھی اک حسینہ جھکائے ہوئے نظر
گزری جو تھوڑی دیر تو محسوس یہ ہوا
ہنستی ہے بار بار مجھے دیکھ دیکھ کر
میں جی ہی جی میں کوژ تھا کہ اک حسن کی پری
لاہور تا کراچی بنی میری ہمسفر
اب جی میں تھا کہ مجھ سے ہو ہمکلام بھی
کچھ میرا حال جانے تو کچھ اپنی دے خبر
آخر وہ چپ نہ رہ سکی بولی کہ بھائی جی
شلوار اندھیرے وچ تساں پُٹھی اے پائی جی
سید سلمان گیلانی
پچھلی حکومت کا کام
پوچھا جو میں نے حال ہے کیسا جناب کا
بولے بدن میں درد ہے نزلہ زکام ہے
میں نے کہا کہ کیسا گزارہ ہے چل رہا
کہنے لگے گرانی سے جینا حرام ہے
میں نے کہا کہ چے زیادہ کیے تھے کیوں
بولے مگر یہ پچھلی حکومت کا کام ہے
سید سلمان گیلانی
ڈیم فنڈ
اک چندہ گوری میم سی ہمسائی ہے میری
میری دلی دعائیں ہیں اس میم کے لیے
کل اپنی ماں سے کہتی تھی چندہ نہ کہہ مجھے
عمران خان مانگ نہ لے ڈیم کے لیے
سید سلمان گیلانی
حلیہ
دیکھ کر داڑھی میری تو مجھے ملا نہ سمجھ
میرے سر پر میری ٹوپی کے اضافے کو نہ دیکھ
ظاہری حلیہ میرا تک کے پریشان نہ ہو
میرے مضمون کو پڑھ میرے لفافے کو نہ دیکھ
سید سلمان گیلانی
لوڈ شیڈنگ
لوفر نہیں شریف ہیں پر ذہنی طور پر
ان راہنماؤں نے ہمیں بے حس بنا دیا
گرمی میں ناچتے ہیں گریبان کھول کر
اس واپڈا نے ہم کو بھی نرگس بنا دیا
سید سلمان گیلانی
فرمانبردار شوہر
کرتا ہوں اس کی نوکری بھی شوہری کے ساتھ
بسکٹ بھی پیش کرتا ہوں بیڈ پر میں ٹی کے ساتھ
سینڈل بھی اس کے کرتا ہوں پالش غضب کے میں
برتن بھی مانجھتا ہوں بڑی عمدگی کے ساتھ
ہر شب شب برأت ہے ہر روز روز عید
خوش ہے بیاہ کر کے وہ اس مولوی ساتھ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں