عنبرین حسیب عنبر کی اردو شاعری : رونق محفل

شعر

خوشیاں جھوٹی غم جھوٹے ہیں
دنیا کیا تم ہم جھوٹے ہیں
ہاں ہم کو بھی عشق تم سے ہے
ہم کیا تم سے کم جھوٹے ہیں

عنبرین حسیب عنبر

غزل

میں سرفراز ہوں تاریخ کے کرداروں میں
میں رہی شعلہ نوا شام کے درباروں میں
میں محبت کی علامت میں وفا کی تصویر
میں ہی چنوائی گئی قصر کی دیواروں میں
قدر یوسف کی زمانے کو بتائی میں نے
تم تو بیچ آئے اسے مصر کے بازاروں میں

عنبرین حسیب عنبر

غزل

چراغ گھر میں جلا نہیں ہے
یہ رات کا مسئلہ نہیں ہے
یہ رات تم سے نہیں کٹے گی
یہ ہجر رت جگا نہیں ہے
دلیل منطق نہیں چلے گی
یہ عشق ہے فلسفہ نہیں ہے
یہ عشق ہے بندگی سمجھ مت
تو آدمی ہے خدا نہیں ہے
ہوا سے لو تھر تھرا گئی تھی
چراغ لیکن بجھا نہیں ہے

عنبرین حسیب عنبر

غزل

خزاں رنگ گلشن نہیں چاہیے
کہ پھولوں کا مدفن نہیں چاہیے
مہکتا نہیں بارشوں سے کبھی
مجھے پکا آنگن نہیں چاہیے
کھنک زندگی میں محبت سے ہے
مجھے، چوڑی، کنگن نہیں چاہیے
تعلق جو رکھو فقط دل سے ہو
کوئی رسمی بندھن نہیں چاہیے
ہم اہلِ قلم دوستی کے امیں
ہمیں کوئی دشمن نہیں چاہیے
نقابیں چڑھائے ہوئے ہیں سبھی
زمانے کو درپن نہیں چاہیے
میں سورج کی کرتی ہوں عنبرؔ دعا
گھر اپنا ہی روشن نہیں چاہیے

عنبرین حسیب عنبر

غزل

ایک دن جب میری آنکھوں سے ہوئے خواب جدا
ہوگئے زیست بسر کرنے کے آداب جدا
نام تاریخ میں لکھواؤ مگر یاد رہے
حق و باطل کے لیے ہوتے ہیں القاب جدا
سچ کا رستہ بڑا شفاف ہے لیکن عنبؔر
اس میں اک موڑ پہ ہو جاتے ہیں احباب جدا

عنبرین حسیب عنبر

غزل

اک کلی سے خوشبو کی رسم و راہ کافی ہے
لاکھ جبر موسم ہو یہ پناہ کافی ہے
نیت زلیخا کی کھوج میں رہو تم ہی
اپنی بے گناہی کو دل گواہ کافی ہے
آسماں پہ جا بیٹھے یہ خبر نہیں تم کو
عرش کے ہلانے کو ایک آہ کافی ہے
عمر بھر کے سجدوں سے مل نہیں سکی جنت
خلد سے نکلنے کو اک گناہ کافی ہے

عنبرین حسیب عنبر

غزل

دھوپ ہے سائبان میں رہنا
میرے دل کی امان میں رہنا
کہیں دنیا نہ مجھ تک آ جائے
تم یونہی درمیان میں رہنا
تم سے کہنی ہے بس یہ آخری بات
دھیان میں رکھنا دھیان میں رہنا
اس زمیں کو سنبھالیے صاحب
کھیل ہے آسمان میں رہنا

عنبرین حسیب عنبر

غزل

وہ مسیحا نہ بنا ہم نے بھی خوہش نہیں کی
اپنی شرطوں پہ جیے اس سے گزارش نہیں کی
جانے کیوں بجھنے لگے اول شب سارے چراغ
آندھیوں نے بھی اگرچہ کوئی سازش نہیں کی
اب کے ہم نے بھی دیا ترک تعلق کا جواب
ہونٹ خاموش رہے آنکھ نے بارش نہیں کی
اس نے ظاہر نہ کیا اپنا پشیماں ہونا
ہم بھی انجان رہے ہم نے بھی پرسش نہیں کی
ہم تو سمجھے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ
تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی

عنبرین حسیب عنبر

غزل

میں ہوں تم ہو اک دنیا ہے توبہ ہے
سارا عالم دیکھ رہا ہے توبہ ہے
سب سے بچ کر تم نے ایک نظر دیکھا
اور یہاں جو دل دھڑکا ہے توبہ ہے
چھیڑ رہی تھی زلف کو چنچل شوخ ہوا
میں یہ سمجھی تم نے چھوا ہے توبہ ہے
میں نے تم سے دل میں ڈھیروں باتیں کیں
تم کو خاموشی کا گلہ ہے توبہ ہے
تم نے پکارا نام کسی کا محفل میں
میں نے اپنا نام سنا ہے توبہ ہے
تم نے کہا تھا آپ سے مل کر خوشی ہوئی
لیکن میں نے جو سمجھا ہے توبہ ہے

عنبرین حسیب عنبر

غزل

جو یاد گھر کی تمہیں ستائے تو لوٹ آنا
کبھی یہ دور جنوں تھکائے تو لوٹ آنا
میں جھیل آنکھوں سے تک رہی ہوں تمہارا رستہ
یہ عکس اشکوں میں جھلملائے تو لوٹ آنا
اکیلے پن کے اس آئینے میں اجڑ رہی ہوں
خبر یہ تم کو لہو رلائے تو لوٹ آنا
یہ قیمتی ساڑھیاں مہکتی ہوئی یہ خوشبو
تمہارے ہونے کی ضد پہ آئے تو لوٹ آنا
دو ننھے پاؤں زمیں پہ پہلا قدم رکھیں گے
خوشی کا یہ پل تمہیں بلائے تو لوٹ آنا
میں اپنے حصے کے خواب کر دوں گی راکھ لیکن
وہ آگ بن کر تمہیں جلائے تو لوٹ آنا
یہ بام و در اجنبی سمجھنے لگیں گے تم کو
کبھی تمہیں یہ خیال آئے تو لوٹ آنا

عنبرین حسیب عنبر

ماں

زیست کی دھوپ ستمگر بھی اگر ہو جائے
میری ماں میرے لیے مثل شجر ہو جائے

عنبرین حسیب عنبر

شعر

سنا بہت تھا مگر آج میں نے سمجھا بھی
بڑا ہنر ہے خوشی کے بغیر ہنسنسا بھی
میں سوچتی ہی رہی کاش پاس گزرے
کبھی کبھی تو میرے پاس سے وہ گزرا بھی

عنبرین حسیب عنبر

شعر

راہ دیکھی نہ راہنما دیکھے
تم نے تو صرف نقش پا دیکھے
خدمت آدمی کے پردے میں
ہم نے بنتے ہوئے خدا دیکھے

عنبرین حسیب عنبر

شعر

ہر دریا کے ساتھ رہو یا ہر موسم کو سنگ رکھو
بادل جیسا تتلی جیسا اپنا کوئی رنگ رکھو
ایک ڈگر پر دنیا آخر کس کو چلنے دیتی ہے
شیشے کا پیکر بن جاؤ اور ہاتھوں میں سنگ رکھو

عنبرین حسیب عنبر

شعر

کہاں وسعت کسی امکان میں ہے
جو اپنے گھر کے دالان میں ہے
بدل سکتا ہے سب کچھ وقت لیکن
وہ اک چہرہ جو میرے دھیان میں ہے
اٹھاؤں بوجھ کیوں منزل تک اس کا
یہ دنیا کب میرے سامان میں ہے

عنبرین حسیب عنبر

شعر

اپنی تقدیر سے کیا جانیے کیا مانگتے ہیں
قد کو جو لوگ بھی قامت سے سوا مانگتے ہیں
لوگ امید مسیحائی کی رکھتے ہوں گے
زندگی ہم تو کوئی زخم نیا مانگتے ہیں

عنبرین حسیب عنبر

شعر

دیوار مت اٹھایئے رستہ بنائیے
سبزہ بچھاتے جائیے سایہ بنائیے
کیوں کر الجھ رہے ہیں کہ منظر ہے رات کا
سورج اگر نہ بن سکے ستارہ بنائیے
گر ہو سکے تو روشنی خوشبو ہوا بنیں
دنیا بہت بری ہے تو اچھا بنائیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں