غزل
گڑگڑائے نہیں ہاں حمد و ثناء سے مانگی
بھیک بھی ہم نے جو مانگی تو خدا سے مانگی
ہاتھ باندھے رہے پلکوں کو جھکائے رکھا
داد بھی ہم نے جو مانگی تو حیا سے مانگی
یہ بھی اڑ جائے جو اک چڑیا بچی ہے گھر میں
اتنی مہلت تو بہرحال خدا سے مانگی
تم بھی ثابت ہوئے کمزور منوؔر رانا
زندگی تم نے بھی مانگی تو دوا سے مانگی
غزل
مری مٹھی سے یہ بالو سرک جانے کو کہتی ہے
کہ اب یہ زندگی مجھ سے بھی تھک جانے کو کہتی ہے
کہانی زندگی کی کیا سنائیں اہل محفل کو
شکر گھلتی نہیں اور کھیر پک جانے کہتی
جسے ہم اوڑھ کر نکلے تھے آغاز جوانی میں
وہ چادر زندگی کی اب مسک جانے کو کہتی ہے
میں اپنی لڑکھڑاہٹ سے پریشاں مگر پوتی
میری انگلی پکڑ کر دور تک جانے کو کہتی ہے
غزل
اک زخمی پرندے کی طرح جال میں ہم ہیں
اے عشق ابھی تک تیرے جنجال میں ہم ہیں
ہنستے ہوئے چہرے نے بھرم رکھا ہمارا
وہ دیکھنے آیا تھا کہ کس حال میں ہم ہیں
اب کی مرضی سنبھالیں نہ سنبھالیں
خوشبو کی طرح آپ کے رومال میں ہم ہیں
اک خواب کی صورت ہی سہی یاد ہے اب تک
ماں کہتی تھی لے اوڑھ لے اس شال میں ہم ہیں
ہم پھوٹ کے رونے لگے جو موت کے ڈر سے
نیکی نے کہا نامئہ اعمال میں ہم ہیں
ہم نے بھی سنوارے ہیں بہت گیسوئے اردو
دِلی میں اگر آپ ہیں بنگال میں ہم ہیں
غزل
کردار پر گناہ کی کالک لگا کے ہم دنیا سے جارہے ہیں یہ دولت کما کے ہم جتنی توقعات زمانے کو ہم سے ہیں اتنی تو عمر بھی نہیں لائے لکھا کے ہم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں