اس کا رونا ہے کہ پیماں شکنی کے با وصف
وہ ستم گر اسی پیشانیٔ خنداں سے ملا
مصطفیٰ زیدی
اے صنم تیری کرنجی آنکھ سے ثابت ہوا
رنگ اڑ جاتا ہے روئے مردم بیمار کا
حیدر علی آتش
ایسے چھپنے سے نہ چھپنا ہی تھا بہتر تیرا
تو ہے پردے میں مگر ذکر ہے گھر گھر تیرا
جلیل مانک پوری
اسی اقبالؔ کی میں جستجو کرتا رہا برسوں
بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہیں زیر دام آیا
علامہ اقبال
اس اک نظر کے بزم میں قصے بنے ہزار
اتنا سمجھ سکا جسے جتنا شعور تھا
آنند نرائن ملا
اڑتا رہا تو چاند سے یارا نہ تھا مرا
گھائل ہوا تو وادیٔ گل پوش میں گرا
قتیل شفائی
اس نے چھیڑا تھا مجھے تم جان دوگے کب ہمیں
کہہ دیا میں نے بھی جب وعدہ وفا ہو جائے گا
بیخود دہلوی
اسی کی روشنی کام آئی عمر بھر اپنے
جو اک ستارہ فقط شام بھر ہمارا ہوا
ظفر اقبال
اس کی آنکھوں میں تمنائے سحر رکھ دینا
سینۂ شب میں کسی بات کا ڈر رکھ دینا
مظہر امام
اس دل کو ہمکنار کیا ہم نے کیا کیا
دشمن کو دوست دار کیا ہم نے کیا کیا
شاہ نصیر
ان کے اندازۂ کرم کے لیے
ہر نفس وقف آرزو ہوگا
ساحر ہوشیار پوری
آشنا کہنے کو یوں تو آپ کے ہوویں گے سو
پر کوئی اے مہرباں ایسا نہ ہوگا آشنا
میر محمد بیدار
اثر حسن کہوں یا کشش عشق کہوں
میں تماشائی تھا وہ مجھ کو تماشا سمجھا
بیخود دہلوی
اختلاط آپ سے اور مجھ سے کہاں کا ایسا
واہ جی جان نہ پہچان یہ گالی دینا
انشاءاللہ خان انشا
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
میر تقی میر
اناڑیوں سے تجھے کھیلنا پڑا اے دوست
سجھا سجھا کے نئی چال مات کھائے جا
حفیظ جالندھری
اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ
کیا کروگے وہ اگر یاد آیا
فانی بدایونی
اس کو خزاں کے آنے کا کیا رنج کیا قلق
روتے کٹا ہو جس کو زمانہ بہار کا
جگت موہن لال رواں
ایک ہجرت جسم نے کی ایک ہجرت روح نے
اتنا گہرا زخم آسانی سے بھر جائے گا کیا
خوشبیر سنگھ شادؔ
الجھا ہے پاوں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
مومن خاں مومن
ایک تھا شخص زمانہ تھا کہ دیوانہ بنا
ایک افسانہ تھا افسانے سے افسانہ بنا
مخدومؔ محی الدین
اس کی افتاد پہ خورشید کی رفعت قرباں
جس کو بھایا ترا نقش کف پا ہو جانا
حفیظ جالندھری
آلودہ بے گناہوں کے خوں سے ہے تیغ چرخ
نا فہموں کو گماں ہے شفق میں ہلال کا
حیدر علی آتش
امرد پرست ہے تو گلستاں کی سیر کر
ہر نونہال رشک ہے یاں خورد سال کا
حیدر علی آتش
اک دم میں جا ملوں گا عزیزان رفتہ سے
کیا عرصہ ہے زمانۂ ماضی سے حال کا
حیدر علی آتش
اے دل قضا نہ آئے ادھر ٹکٹکی نہ باندھ
گولی کا سامنا ہے یہ نظارہ خال کا
حیدر علی آتش
آتشؔ لحد سے اٹھوں گا کہتا یہ روز حشر
مشتاق ہوں میں یار کے حسن و جمال کا
حیدر علی آتش
اپنے قریب پا کے معطر سی آہٹیں
میں بارہا سنکتی ہوا سے لپٹ گیا
قتیل شفائی
اک خبر تھی جسے ظاہر نہ کیا ہم نے کبھی
اک خزانہ تھا جسے زیر زمیں رہنے دیا
ظفر اقبال
آسماں سے کبھی ہم نے بھی اتارا نہ اسے
اور اس نے بھی ہمیں خاک نشیں رہنے دیا
ظفر اقبال
اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا
صبح کا ہونا دوبھر کر دیں رستہ روک ستاروں کا
ابن انشا
انشاؔ جی اب اجنبیوں میں چین سے باقی عمر کٹے
جن کی خاطر بستی چھوڑی نام نہ لو ان پیاروں کا
ابن انشا
اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بیچاروں کا
ابن انشا
ایک ذرا سی بات تھی جس کا چرچا پہنچا گلی گلی
ہم گمناموں نے پھر بھی احسان نہ مانا یاروں کا
ابن انشا
ادھر اس کی نگہ کا ناز سے آ کر پلٹ جانا
ادھر مرنا تڑپنا غش میں آنا دم الٹ جانا
نظیر اکبرآبادی
اگر ملنے کی دھن رکھنا تو اس ترکیب سے ملنا
سرکنا دور ہٹنا بھاگنا اور پھر لپٹ جانا
نظیر اکبرآبادی
اس شہر کو راس آئی ہم جیسوں کی گم نامی
ہم نام بتاتے تو یہ شہر بھی جل جاتا
زہرا نگاہ
اشک ہے ہم رہ آہ دل سوزاں پیدا
کیا تماشا ہے کہ آتش سے ہے باراں پیدا
شاہ نصیر
اس سے طرح طرح کی شکایت رہی مگر
میری طرف سے رنج اسے کم نہیں ملا
ساقی فاروقی
ایک ایک کر کے لوگ بچھڑتے چلے گئے
یہ کیا ہوا کہ وقفۂ ماتم نہیں ملا
ساقی فاروقی
اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا
منیر نیازی
اے خدا ممنون ہوں تیرا کہ میرے پھول میں
تو نے خوشبوئے ہوس رنگ وفا رہنے دیا
مظہر امام
ایک ناز بے تکلف میرے تیرے درمیاں
دوریاں ساری مٹا دیں فاصلہ رہنے دیا
مظہر امام
اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے میلے آنچل کا
یہ کس نے رو رو کے گگن میں اپنا کاجل گھول دیا
شکیب جلالی
اشکوں کی اجلی کلیاں ہوں یا سپنوں کے کندن پھول
الفت کی میزان میں میں نے جو تھا سب کچھ تول دیا
شکیب جلالی
اب اہل کارواں پہ لگاتا ہے تہمتیں
وہ ہم سفر جو حیلے بہانے میں رہ گیا
حفیظ میرٹھی
اے عشق قسم تجھ کو معمورۂ عالم کی
کوئی غم فرقت میں غم خوار نظر آیا
فراق گورکھپوری
ایک وسعت آسماں در آسماں بڑھتی ہوئی
اک پرندہ بال و پر میں تر بتر ہوتا ہوا
پریم کمار نظر
ایک پہنائی مکاں سے لا مکاں ہوتی ہوئی
ایک لمحہ مختصر سے مختصر ہوتا ہوا
پریم کمار نظر
ایک انگڑائی سے سارے شہر کو نیند آ گئی
یہ تماشا میں نے دیکھا بام پر ہوتا ہوا
پریم کمار نظر
اے شوق تیرے صدقے پہنچا دیا کہاں تک
اے عشق تیرے قرباں جینا ہے اب نہ مرنا
جگر مراد آبادی
اشکوں کو بھی یہ جرأت اللہ رے تیری قدرت
آنکھوں تک آتے آتے پھر دل میں جا ٹھہرنا
جگر مراد آبادی
اے جان ناز آ جا آنکھوں کی راہ دل میں
ان خشک ندیوں سے مشکل ہو کیا گزرنا
جگر مراد آبادی
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
احمد فراز
اللہ رے ناتوانی جب شدت قلق میں
بالیں سے سر اٹھایا دیوار تک نہ پہنچا
مومن خاں مومن
اپنی آنکھوں پہ تجھے اتنا بھروسا کیوں ہے
تیرے بیمار چلے تو ہے مسیحا کیسا
ساقی فاروقی
آج خاموش ہیں ہنگامہ اٹھانے والے
ہم نہیں ہیں تو کراچی ہوا تنہا کیسا
ساقی فاروقی
ابھی تیرا دور شباب ہے ابھی کیا حساب و کتاب ہے
ابھی کیا نہ ہوگا جہان میں ابھی اس جہاں میں ہوا ہے کیا؟
کلیم عاجز
اشک یوں تھم رہے ہیں مژگاں پر
کوئی موتی پرو نہیں سکتا
بیاں احسن اللہ خان
اے شب ہجر مجھے تو نے تو دیکھا ہوگا
میری مانند نہ تھا صبح کا تارا تنہا
سلیم احمد
اثر ہووے نہ ہووے پر بلا سے جی تو بہلے گا
نکالا شغل تنہائی میں میں ناچار رونے کا
میر حسن
اب اس کے پاس کوئی سنگ پھینکنے کو نہیں
فضا میں آخری پتھر بھی وہ اچھال آیا
اظہر عنایتی
اسے کیا مجھے بھی نہیں تھی خبر
کہ میں قید سے کب رہا ہو گیا
عبید صدیقی
اے جنوں روز رہے ہے مرے دامن سے لگا
ہوں قدم بوس نہ کیوں خار بیابانی کا
شاہ نصیر
اس قدر مشتاق ہوں زاہد خدا کے نور کا
بت بھی بنوایا کبھی میں نے تو سنگ طور کا
امیر مینائی
اب یاد نہیں مجھ کو فرازؔ اپنا بھی پیکر
جس روز سے بکھرا ہوں سمٹ کر نہیں دیکھا
احمد فراز
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
جون ایلیا
اے مرے صبح و شام دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
جون ایلیا
اب جس کی دید کا ہے سودا ہمارے سر میں
وہ اپنی ہی نظر میں اپنا ہی اک سماں تھا
جون ایلیا
اس شہر کی حفاظت کرنی تھی ہم کو جس میں
آندھی کی تھیں فصیلیں اور گرد کا مکاں تھا
جون ایلیا
اس عہد ظلم میں میں بھی شریک ہوں جیسے
مرا سکوت مجھے سخت مجرمانہ لگا
احمد فراز
اس ایک ساعت شب کا خمار یاد کریں
بدن کے لمس کو جب ہم نے مل کے بانٹا تھا
زبیر رضوی
اب اس کے نام پہ دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا
وہ جس کو ہم نے کبھی بے حساب چاہا تھا
زبیر رضوی
اگر ہے شوق اسیری تو موند لے آنکھیں
تو عمر بھر در و دیوار بھی نہ دیکھے گا
محسن احسان
اس کڑی دھوپ کے سناٹے میں حیران ہوا
گھر سے جو بھی نکل آیا وہ پشیمان ہوا
محسن احسان
اک تلاطم سا ہے ہر سمت تمناؤں کا
دل پہ ہوتا ہے گماں شہر ہے دریاؤں کا
محسن احسان
اب کے گھنگھور گھٹا کھل کے جو برسے بھی تو کیا
دھوپ نے رنگ ہی کجلا دیا صحراؤں کا
محسن احسان
اب سر دشت خود آرائی کھڑا ہوں تنہا
میں کہ دولہا تھا کبھی انجمن آراؤں کا
محسن احسان
Very nice but please update regularly
جواب دیںحذف کریں