بیت بازی کورس : الف سے شروع ہو کر ب پر ختم ہونے والے اردو اشعار

  1. اب برگ گل بھی چھینے ہے دست نسیم سے
    آگے تو اس قدر نہ تھی سرہنگ عندلیب

    مصحفی غلام ہمدانی

  2. اپنی تو ساری عمر پس و پیش میں کٹی
    سو بار زیب تن کئے سو بار اتارے خواب

    نعمان شوق

  3. اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب
    مجھ دل زدہ کو نیند نہ آئی تمام شب

    میر تقی میر

  4. اگرچہ میرے نشیمن کا کر رہا ہے طواف
    مری نوا میں نہیں طائر چمن کا نصیب

    علامہ اقبال

  5. اگرچہ اہل نوا خوش ہیں ہر طرح لیکن
    زیادہ ان سے ہے ہر بے نوا کو عیش و طرب

    نظیر اکبرآبادی

  6. اس دہر میں بلندیٔ اذہان کند سے
    میں گرچہ جانتا تھا انہیں فال کی کتاب

    مصحفی غلام ہمدانی

  7. ابر کے ٹکڑے نہ الجھیں میری موج اشک سے
    خشک مغزوں سے ہے مشکل مصرعۂ تر کا جواب

    امیر مینائی

  8. اگر تو شہرۂ آفاق ہے تو تیرے بندوں میں
    ہمیں بھی جانتا ہے خوب اک عالم میاں صاحب

    تاباں عبد الحی

  9. اگر بوسہ نہ دینا تھا کہا ہوتا نہیں دیتا
    تم اتنی بات سے ہوتے ہو کیا برہم میاں صاحب

    تاباں عبد الحی

  10. اس نگہ کا ہے دل جراحت کش
    زخم تیغ و خدنگ کیا ہے اب

    میر محمدی بیدار

  11. اگلی باتوں کا ذکر جانے دو
    آج اس تذکرے سے کیا مطلب

    حفیظ جونپوری

  12. اے چرخ فتنہ گر یہ روا ہے کہ ہر برس
    صہبا کشوں پہ باج کی ٹھہرائے محتسب

    مصحفی غلام ہمدانی

  13. اس گل بدن کے وصل سے ہر دم نظیرؔ کو
    سب سے زیادہ خلق میں عیش و طرب ہے اب

    نظیر اکبرآبادی

  14. اثر ہو یا نہ ہو واعظ بیاں میں
    مگر چلتی تو ہے تیری زباں خوب

    مبارک عظیم آبادی

  15. ایک تمنا ہو تو یار سے کہئے نظیرؔ
    دل ہے پر از آرزو کیجئے کیا کیا طلب

    نظیر اکبرآبادی

  16. اس خرابات کا یہی ہے مزہ
    کہ رہے آدمی مدام خراب

    داغؔ دہلوی

  17. ابر تر سے صبا ہی اچھی تھی
    میری مٹی ہوئی تمام خراب

    داغؔ دہلوی

  18. التفات زمانہ پر مت جا
    میرؔ دیتا ہے روزگار فریب

    میر تقی میر

  19. افسانے سے بگاڑ ہے ان بن ہے خواب سے
    ہے فکر وصل و ذکر جدائی تمام شب

    مصطفیٰ خاں شیفتہ

  20. اسے میں ایک مسلسل چراغ کر دیتا
    مری گرفت میں ہوتا جو استعارۂ شب

    فرحت احساس

  21. ان بیانوں سے غرض ہم نے یہ جانا صاحب
    آپ کو خون ہمارا ہے بہانا صاحب

    نظیر اکبرآبادی

  22. اب جو بوڑھے ہیں تو اب بھی ہمیں شیطان نظیرؔ
    ہنس کے کہتا ہے اجی آئیے نانا صاحب

    نظیر اکبرآبادی

  23. اب اس کی شکل بھی مشکل سے یاد آتی ہے
    وہ جس کے نام سے ہوتے نہ تھے جدا مرے لب

    حمد مشتاق

  24. ایک عالم پہ ہیں طوفانی کیفیت فصل
    موجۂ سبزۂ نو خیز سے تا موج شراب

    مرزا غالب

  25. اب اس کی شکل بھی مشکل سے یاد آتی ہے
    وہ جس کے نام سے ہوتے نہ تھے جدا مرے لب

    احمد مشتاق

  26. اب ایک عمر سے گفت و شنید بھی تو نہیں
    ہیں بے نصیب مرے کان بے نوا مرے لب

    احمد مشتاق

  27. اس تازہ دم ہوا میں مرے ماہ نیم ماہ
    اس بام سے جدا نہ کبھی ہو طلوع شب

    عزیز حامد مدنی

  28. اسی انداز سے پھر صبح کا آنچل ڈھلکے
    اسی انداز سے چل باد صبا آخر شب

    مخدومؔ محی الدین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں