زاہد فخری کی اردو شاعری

غزل


محبت کے سفر میں کوئی بھی رستہ نہیں دیتا

زمیں واقف نہیں بنتی فلک سایہ نہیں دیتا

خوشی اور دکھ کے موسم سب کے اپنے اپنے ہوتے ہیں

کسی کو اپنے حصے کا کوئی لمحہ نہیں دیتا

نہ جانے کون ہوتے ہیں جو بازو تھام لیتے ہیں

مصیبت میں سہارا کوئی بھی اپنا نہیں دیتا

اداسی جس کے دل میں ہو اسی کی نیند اڑتی ہے

کسی کو اپنی آنکھوں سے کوئی سپنا نہیں دیتا

اٹھانا خود ہی پڑتا ہے تھکا ٹوٹا بدن فخرؔی

کہ جب تک سانس چلتی ہے کوئی کندھا نہیں دیتا

زاہد فخرؔی

اسے میری چپ نے رلا دیا


اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقف حال تھا

وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی وہی میرا وقتِ زوال تھا

میرا درد کیسے وہ جانتا میری بات کیسے وہ مانتا

وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا اسے روکنا بھی محال تھا

کہاں جاو گے مجھے چھوڑ کر میں یہ پوچھ پوچھ کہ تھک گیا

وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا

وہ جو اس کے سامنے آ گیا وہی روشنی میں نہا گیا

عجب اس کی ہیبت حسن تھی عجب اس کا رنگ جمال تھا

دم واپسی اسے کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی

وہ ستارہ کیسے بکھر گیا وہ تو آپ اپنی مثال تھا

وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا

اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا

میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا مجھے فخرؔی اتنا وہ کہ سکا

جسے جانتا تھا میں زندگی وہ صرف وہم و خیال تھا

زاہد فخرؔی

پردیسیوں کی غزل


چہرے پہ اپنا دستِ کرم پھیرتی ہوئی ماں رو پڑی ہے گال میرے چومتی ہوئی

اب کتنے دن رہو گے میرے پاس تم یہاں تھکتی نہیں وہ مجھ سے یہی پوچھتی ہوئی

کہتی کیسے کٹتی ہے پردیس میں تیری آنکھوں سے اپنے اشکِ رواں پونجھتی ہوئی

رہتی ہے جاگتی وہ میری نیند کے لیے بچوں کو مجھ سے دور پرے روکتی ہوئی

ہر بار پوچھتی ہے کہ کس کام پہ ہو تم فخرؔی وہ سخت ہاتھ میرے دیکھتی ہوئی

زاہد فخرؔی

رخصتی


پل دو پل تے بہہ جا کُڑیے تھوڑی دیر تے رہ جا کُڑیے

کدی کدی فیر آونڑاں اے توں دیری پھیرا پاونڑاں اے توں

جِتنی دیر وی بہنڑاں اے توں گھڑیاں گِنڑدی رہنڑاں اے توں

ماپے سخیاں ویر نی کُڑیے اج سارے دلگیر نی کُڑیے

اِس ای گھر وچ رہندی ساں توں چوکڑی مار کے بہندی ساں توں

ویراں نال کھنڈیندی ساں توں بابل بابل کہندی ساں توں

پُچھ لئے ماں دا حال نی کُڑیے کادی تینوں کال نی کُڑیے

سوہنڑاں رب سبھناں دا والی رکھے تینوں بھاگاں والی

سس سوہرے تیرے صدقے جاون دیوراں ننداں لاڈ لڈاون

بابل کرے دعا نی کڑیے پورے ہوون چاہ نی کُڑیے

نام کماویں خدمت کر کے عزت پاویں عزت کر کے

سر دا سائیں رہوے سلامت رہوے سلامت تیری جنت

توں ہنڑ اس دی شان نی کُڑیے گھر دا مان تران نی کُڑیے

پل دو پل تے بہہ جا کُڑیے تھوڑی دیر تے رہ جا کُڑیے

زاہد فخرؔی

شعر


جو خود کو میم کہتی ہے اُسے کالو نہیں ملتا

عجب بحران ہے خالہ کو بھی خالو نہیں ملتا

تجھے یہ غم کہ سالن میں تجھے بوٹی نہیں ملتی

مجھے بھی دیکھ شورے میں جسے آلو نہیں ملتا

میرا بھی ماجرا سن لے کسی تمہید سے پہلے

مجھے مہنگائی نے مارا ہے یارا عید سے پہلے

زاہد فخرؔی

شعر


کل چاند رات مال پہ محبوبہ مل گئی

ہر لمحہ یاد آگیا عہدِ شباب کا

پر ظلم دیکھیے میری بیگم تھی میرے ساتھ

ہڈی ہو بیچ میں تو مزہ کیا کباب کا

زاہد فخرؔی

شعر


قسمت بری تھی اپنی کہ خواجہ سرا تھا وہ

لڑکی سمجھ کے جس کو میرا دل مچل گیا

لیکر کبھی جو عید پہ مہنگا سا سوٹ میں

بیگم کے پاس پہنچا تو فیشن بدل گیا

زاہد فخرؔی

شعر


آیا عمل نہ دوسری شادی کا مجھ کو راس

دریائے تند و تیز تھا دو نیم ہو گیا

کھاتی ہیں باری باری مجھے نوچ نوچ کر

فخرؔی میں دو بلاوں تقسیم ہو گیا

زاہد فخرؔی

نظم


فاقوں کے بعد روزے تھے پھر عید آگئی

مہنگائی بڑھتے بڑھتے بہت کھل کھلا گئی

پہلے کسی بہانے سے سالی ٹپک پڑی

پھر اس کے پییچھے پیچھے میری ساس آگئی

ملنے سسر بھی آنے لگے روز شام کو

کچھ ایسے ان کو چائے میرے گھر کی بھا گئی

سالے بھی میرے گھر کو سمجھتے ہیں اپنا گھر

ان کو میری گلی کی ہوا راس آگئی

کر کر کے ان کی خدمتیں میں آدھا رہ گیا

میری تو ساری زندگی ہی گڑبڑا گئی

اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں گیا

مجھ اچھے خاصے آدمی کو شادی کھا گئی

زاہد فخرؔی

نظم


مجھے ہر حال میں اب لمحہ لمحہ مسکرانا ہے

کہ سالی جی نے کرنے عید پاکستان آنا ہے

ہمیشہ سے سنا تھا آفتیں تنہا نہیں آتیں

سنا ہے اس کے شوہر نے بھی اس کے ساتھ آنا ہے

یہ وہ سالی ہے جس کے پاس ہر سائز کے بچے ہیں

انہی بچوں نے گھر میں ہائے کیا اودھم مچانا ہے

یہاں تک بھی اگر ہوتا تو میں اتنا نہ گھبراتا

کہ بیگم کے بڑے بھیا نے بھی مسقط سے آنا ہے

یہ وہ بھیا ہے جس ساتھ اک بھابھی بھی ہوتی ہے

وہ جس نے شوخیوں سے آسماں سر پر اٹھانا ہے

ابھی سسرال جا کر ساس جی کو ساتھ لانا ہے

یہ ایسے ہے کہ جیسے جون میں ملتان جانا ہے

ابھی کچھ روز باقی ہیں یہ گھر سسرال بننے میں

ابھی اپنی حکومت ہے ابھی اپنا زمانہ ہے

سناتی ہے مجھے ہر روز بیگم ایک ہی لیکچر

میرے پیاروں کے آنے پر یہ گھر کیسے چلانا ہے

کسے شاپنگ کرانی ہے کسے خالی گھمانا ہے

کسے برگر کھلانے ہیں کسے بوفے کھلانا ہے

وہ کہتی ہے کہیں سے میں پجارو چھین ہی لاؤں

کہ موٹروے سے ہو کر اب تو ہر منزل پہ جانا ہے

وہ کہتی ہے یہ اپنے ہیں انہیں سب کچھ دکھانا ہے

انہیں گلگت کے رستے سے مری تک لے کے جانا ہے

وہ کہتی ہے کہ ان کو عید بھی دیں گے ہزاروں میں

بہت خوشحال ہیں ہم نے یہی ڈنکا بجانا ہے

بہت حیران ہو کر سوچتا رہتا ہوں میں اکثر

مجھے کیا یاد رکھنا ہے مجھے کیا بھول جانا ہے

زاہد فخرؔی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں