ماچس لکھنوی کی خوبصورت اردو شاعریbeautiful Urdu Poetry by Machis Lakhnavi

ہزل

شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
کچھ ہوتا رہے گا ہونہی ہر سال ندارد
تبت کبھی غائب کبھی نیپال ندارد
رومال جو ملتے تھے تو تھی رال ندارد
اب رال ٹپکتی ہے تو رومال ندارد
تحقیق کیا ان جو شجرہ تو یہ پایا
کچھ یوں ہی سی ننھیال ہے ددھیال ندارد
ہے اس بت کافر کا شباب اپنا بڑھاپا
ماضی ہے ادھر گول ادھر حال ندارد
تعداد میں ہیں عورتیں مردوں سے زیادہ
قوالیاں موجود ہیں قوال ندارد
بیوی کی بھی جوتی کے تلے ہو گئے غائب
شوہر کے اگر سر سے ہوئے بال ندارد
ہوتا ہے یہی حسن کے اور عشق کے مابین
اس سال کی جو باتیں تھیں وہ اس سال ندارد
انساں تو ہیں موجود مگر کیا کہیں تم سے
ہے بوئے وفا بھائی اگروال ندارد
اس بت پہ شباب آیا کوئی شیخ سے کہ دو
یہ کیسی قیامت ہے کہ دجال ندارد
ماں باپ بہن بھائی سب ان کے ہیں مرے ساتھ
اب گھر مرا سسرال ہے سسرال ندارد
کٹوا کے حسیں زلفوں کو دل پھانسنے نکلے
یہ کیسے شکاری ہیں کہ ہے جال ندارد
مستقبل رنگیں کے لیے اہل وطن کا
جو حال ضروری تھا وہی حال ندارد
اللہ رے ستم وصل کا جس سال تھا وعدہ
وہ ہو گئے دنیا سے اسی سال ندارد
ہے جنس محبت کا خریدار زمانہ
بازار میں لیکن ہے یہی مال ندارد
ساقی مرا واعظ تو نہیں چہرے پہ جس کے
رمضان ہی رمضان ہے شوال ندارد
بٹواؤ نہ یوں جوتیوں میں دال مری جاں
کیا کھاؤ گے گر ہو گئی یہ دال ندارد
واعظ کو نہ کیوں اپنی ضعیفی سے گلہ ہو
ہیں بیویاں دس دس مگر اطفال ندارد
خاموش جو بیٹھو تو ہوا کرتی ہے الجھن
پرواز کی سوچو تو پر و بال ندارد
درگت یہ بنی فحش نگاری سے ادب کی
وہ روب وہ چہرے کے خد و خال ندارد
ماچؔس نہ کہیں نالۃ سوزاں سے لگے آگ
ہو جائے نہ پنڈال کا پنڈال ندارد

ماچس لکھنوی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں