ہزل
شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
کچھ ہوتا رہے گا ہونہی ہر سال ندارد
تبت کبھی غائب کبھی نیپال ندارد
رومال جو ملتے تھے تو تھی رال ندارد
اب رال ٹپکتی ہے تو رومال ندارد
تحقیق کیا ان جو شجرہ تو یہ پایا
کچھ یوں ہی سی ننھیال ہے ددھیال ندارد
ہے اس بت کافر کا شباب اپنا بڑھاپا
ماضی ہے ادھر گول ادھر حال ندارد
تعداد میں ہیں عورتیں مردوں سے زیادہ
قوالیاں موجود ہیں قوال ندارد
بیوی کی بھی جوتی کے تلے ہو گئے غائب
شوہر کے اگر سر سے ہوئے بال ندارد
ہوتا ہے یہی حسن کے اور عشق کے مابین
اس سال کی جو باتیں تھیں وہ اس سال ندارد
انساں تو ہیں موجود مگر کیا کہیں تم سے
ہے بوئے وفا بھائی اگروال ندارد
اس بت پہ شباب آیا کوئی شیخ سے کہ دو
یہ کیسی قیامت ہے کہ دجال ندارد
ماں باپ بہن بھائی سب ان کے ہیں مرے ساتھ
اب گھر مرا سسرال ہے سسرال ندارد
کٹوا کے حسیں زلفوں کو دل پھانسنے نکلے
یہ کیسے شکاری ہیں کہ ہے جال ندارد
مستقبل رنگیں کے لیے اہل وطن کا
جو حال ضروری تھا وہی حال ندارد
اللہ رے ستم وصل کا جس سال تھا وعدہ
وہ ہو گئے دنیا سے اسی سال ندارد
ہے جنس محبت کا خریدار زمانہ
بازار میں لیکن ہے یہی مال ندارد
ساقی مرا واعظ تو نہیں چہرے پہ جس کے
رمضان ہی رمضان ہے شوال ندارد
بٹواؤ نہ یوں جوتیوں میں دال مری جاں
کیا کھاؤ گے گر ہو گئی یہ دال ندارد
واعظ کو نہ کیوں اپنی ضعیفی سے گلہ ہو
ہیں بیویاں دس دس مگر اطفال ندارد
خاموش جو بیٹھو تو ہوا کرتی ہے الجھن
پرواز کی سوچو تو پر و بال ندارد
درگت یہ بنی فحش نگاری سے ادب کی
وہ روب وہ چہرے کے خد و خال ندارد
ماچؔس نہ کہیں نالۃ سوزاں سے لگے آگ
ہو جائے نہ پنڈال کا پنڈال ندارد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں