شکیل اعظمی کی اردو شاعری

غزل

درد کی حد سے گزارے تو سبھی جائیں گے

جلد یا دیر سے مارے تو سبھی جائیں گے


ندیاں لاشوں کو پانی میں نہیں رکھتی ہیں

تیرے یا ڈوبے کنارے تو سبھی جائیں گے


چاہے کتنی بھی بلندی پہ چلا جائے کوئی

آسمانوں سے اتارے تو سبھی جائیں گے


مسجدیں سب کو بلاتی ہیں بھلائی کی طرف

آئیں نہ آئیں پکارے تو سبھی جائیں گے

شکیل اعظمی

غزل

کوئی ملبوس ہو کستا نہیں ہے

ہمیں اب سانپ بھی ڈستا نہیں ہے


یہ بچے جانے کس اسکول کے ہیں

کسی کی پیٹھ پہ بستہ نہیں ہے


یہاں سب اپنی چھت پر چل رہے ہیں

گھروں کے بیچ میں رستہ نہیں ہے


درختوں پر قصیدے لکھ رہا ہوں

کلہاڑی میں ابھی دستہ نہیں ہے

شکیل اعظمی

غزل

پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے

زمیں پہ بیٹھ کہ کیا آسمان دیکھتا ہے


یہی وہ شہر جو میرے لبوں سے بولتا تھا

یہی وہ شہر جو میری زبان دیکھتا ہے


میں جب مکان سے باہر قدم نکالتا ہوں

عجب نگاہ سے مجھ کو مکان دیکھتا ہے


گھٹائیں اٹھتی ہیں برسات ہونے لگتی ہے

جب آنکھ بھر کے فلک کو کسان دیکھتا ہے


ملا ہے حسن تو اس حسن کی حفاظت کر

سنبھل کے چل تجھے سارا جہان دیکھتا ہے


کنیز ہو کوئی یا کوئی شاہزادی ہو

جو عشق کرتا ہے کب خاندان دیکھتا ہے

شکیل اعظمی

غزل

اچھا ہے میرے غم کا کسی کو پتا نہیں

اس گھر میں کوئی میرے سوا جاگتا نہیں


اب کے شب خموش بڑی خوفناک ہے

تارہ بھی آسماں سے کوئی ٹوٹتا نہیں


بستی کا خواب رات کے چہرے پہ مار دے

جنگل سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں


پہلے ہماری بھول پہ بھی آنکھ کان تھے

اب لڑکھڑائیں بھی تو کوئی ٹوکتا نہیں

شکیل اعظمی

غزل

ابر میں برق سے پانی کا جہاں روشن ہے

دور تک ایک معانی کا جہاں روشن ہے


مچھلیاں تیرتی جاتی ہیں چراغوں کی طرح

ٹھہرے پانی پہ روانی کا جہاں روشن ہے


چاند چہروں پہ مہاسوں کی کرن پھوٹتی ہے

جسم میں ایک جوانی کا جہاں روشن ہے


لفظ در لفظ دہکتے ہیں مرے غم کے الاؤ

مجھ میں اک شعلہ بیانی کا جہاں روشن ہے


باری باری سبھی کردار بجھے جاتے ہیں

ایک راوی سے کہانی کا جہاں روشن سے

شکیل اعظمی

غزل

میں اچھا تھا، مگر بدنام تھا کچھ

کہ میرے سر پہ بھی الزام تھا کچھ


در و دیوار میں لو چل رہی ہے

سفر کی دھوپ میں آرام تھا کچھ


ملا تھا ایک خوشبو دار چہرہ

گلوں سے ملتا جلتا نام تھا کچھ


میں پہنچا تو وہ واپس جا چکی تھی

مجھے بھی زندگی سے کام تھا کچھ


اُن آنکھوں میں، جو ہم سے چھپ رہی تھیں

ہمارے واسطے پیغام تھا کچھ


اسے کیا ہجر کہتے اور کیا وصل

محبت کا عجب انجام تھا کچھ

شکیل اعظمی

غزل

یہ خوف بھی نکال دوں، سر میں نہیں رکھوں

گھر کا خیال اب کے سفر میں نہیں رکھوں


بے آب کرکے آنکھ کو دیکھوں ہر ایک شے

منظر کہیں کا بھی ہو نظر میں نہیں رکھوں


یہ گرد بھی اتار دوں اس بار جسم سے

باہر کی کوئی چیز ہو گھر میں نہیں رکھوں


گھر بار چھوڑ دوں کہ یہی چاہتا ہے ذوق

سود و زیاں کی بات ہنر میں نہیں رکھوں


آندھی بھی جائے باغ میں پھل توڑتی پھرے

میں بھی چراغ را بگذر میں نہیں رکھوں


پیمان وفا کے لئے سر ہے جان ہے

دل کو مگر کسی کے اثر میں نہیں رکھوں


دیکھوں تو مجھ کو کون نکلتا ہے ڈھونڈ نے

کچھ روز اور خود کو خبر میں نہیں رکھوں

شکیل اعظمی

غزل

میں بھی تنہا ہوں، اکیلی سی لگے ہے وہ بھی

اپنی آنکھوں میں پہلی سی لگے ہے وہ بھی


میرے اندر بھی خموشی ہے مزاروں جیسی

ایک ویران حویلی کی لگے ہے وہ بھی


میں بھی جلتا ہوں چراغوں کی طرح کمرے میں

اپنے آنگن میں چمیلی سی لگے ہے وہ بھی


راستہ بھولا ہوا ہوں کوئی شہزادہ میں

اور پریوں کی سہیلی کی لگے ہے وہ بھی


میری آنکھوں میں مہکتا ہے حنائی موسم

اپنی رنگین ہتھیلی سی لگے ہے وہ بھی


گاؤں کے میلے میں اک عاشق دل پھینک سا میں

اور اک نار نویلی کی لگے ہے وہ بھی


گچھا باندھوں تو لگوں میں بھی بنارس جیسا

مجھمکا پہنے تو بریلی کی لگے ہے وہ بھی

شکیل اعظمی

غزل

بازار میں اک ہم ہی ضرورت کے نہیں تھے

بکتے بھی تو کیسے کسی قیمت کے نہیں تھے


ہم ایک ہی معبود رکھا کرتے تھے جب تک

ہم میں کبھی جھگڑے قد و قامت کے نہیں تھے


الہام سے اک خاص تعلق تھا ہمارا

ہم لوگ مگر عہد نبوت کے نہیں تھے


اس بار ہی کیوں ٹوٹ گئے اس سے بچھڑ کر

اس بار تو رشتے بھی محبت کے نہیں تھے


اس نے تو کئی بار قدم گھر سے نکالے

ہم میں ہی جراثیم بغاوت کے نہیں تھے

شکیل اعظمی

غزل

سفر ہو کوئی بھی تقلید ہم نہیں کرتے

کہ چاند دیکھے بنا عید ہم نہیں کرتے


تمہاری بات بھلی ہے بُری ہے، تم جانو

ہماری مرضی ہے تائید ہم نہیں کرتے


مخالفت کے لئے بھی بہاؤ لازم ہے

کہ ٹھہرے پانی پر تنقید ہم نہیں کرتے


بڑوں نے اتنا ڈرایا تھا ہم کو بچپن میں

کہ اپنے بچوں کو تاکید ہم نہیں کرتے


ہمارے پاس اگر آسمان ہوتا شکیلؔ

سپرد خاک یہ خورشید ہم نہیں کرتے

شکیل اعظمی

غزل

ایک سوراخ سا کشتی میں ہوا چاہتا ہے

سب اثاثہ مرا پانی میں بہا چاہتا ہے


مجھ بکھرایا گیا اور سمیٹا بھی گیا

جانے اب کیا میری مٹی سے خدا چاہتا ہے


ٹہنیاں خشک ہوئیں جھڑ گئے پتے سارے

پھر بھی سورج میرے پودے کا بھلا چاہتا ہے


ٹوٹ جاتا ہوں میں ہر روز مرمت کر کے

اور گھر ہے کہ مرے سر پہ گرا چاہتا ہے


صرف میں ہی نہیں سب ڈرتے ہیں تنہائی سے

تیرگی روشنی ویرانہ صدا چاہتا ہے


ؔدن سفر کر چکا اب رات کی باری ہے شکیل

نیند آنے کو ہے دروازہ لگا چاہتا ہے


شکیل اعظمی

غزل

کواڑ بند گھروں کی چھتوں سے نکلے ہیں

ہوا بغیر ہی ہم رفعتوں سے نکے ہیں


یہ آسمان تو میرا ہی خیمۂ شب ہے

تمام رنگ مری وحشتوں سے نکلے ہیں


نشہ کیا ہے تو کچھ دیر لڑکھڑانے دے

ابھی ابھی تو تری صحبتوں سے نکلے ہیں


بدن بدن تو نہ تھا تجھ کو بھولنے کا عمل

لہو میں ڈوبی ہوئی رغبتوں سے نکلے ہیں


اب اس لکیر کو چمکائیں گے ہمی مل کر

یہ فاصلے بھی گھنی قربتوں سے نکلے ہیں


فرشتگی تو ضروری ہے واپسی کے لئے

ہم آدمی کی طرح جنتوں سے نکلے ہیں

شکیل اعظمی

10 beauty tips

Beauty is more than skin deep. It’s about taking care of yourself from the inside out. When you feel good, you look good. And when you look good, you feel good. Here are ten beauty tips that will help you look and feel your best:

  1. Stay Hydrated: Water is essential for healthy skin. It keeps your skin moisturized and plump, which helps prevent wrinkles and fine lines. Aim to drink at least 8 glasses of water a day, and if you find it hard to drink plain water, try adding some lemon or cucumber slices to give it some flavor.
  2. Get Enough Sleep: A good night’s sleep is essential for healthy-looking skin. When you’re well-rested, your skin looks brighter and more refreshed. Lack of sleep can cause dark circles and puffiness under the eyes, which can make you look tired and aged.
  3. Eat a Healthy Diet: Eating a diet rich in fruits, vegetables, and healthy fats can do wonders for your skin. These foods are full of antioxidants, vitamins, and minerals that help nourish your skin from the inside out.
  4. Protect Your Skin from the Sun: Sun damage is one of the main causes of wrinkles and fine lines. Make sure to wear sunscreen with at least SPF 30 every day, even on cloudy days. Also, try to stay out of the sun during peak hours, wear protective clothing and hats, and seek shade whenever possible.
  5. Exfoliate Regularly: Exfoliating helps remove dead skin cells, which can clog pores and cause acne. It also helps improve skin texture and tone, making your skin look brighter and smoother. Aim to exfoliate once or twice a week, depending on your skin type.
  6. Moisturize Daily: Moisturizing helps keep your skin hydrated and prevents dryness, which can lead to wrinkles and fine lines. Choose a moisturizer that is suited for your skin type and apply it every day after cleansing.
  7. Exercise Regularly: Exercise not only helps you stay in shape but also helps improve circulation, which can give your skin a healthy glow. It also helps reduce stress, which can contribute to acne and other skin problems.
  8. Manage Stress: Stress can wreak havoc on your skin. It can cause acne, eczema, and other skin problems. Try to find ways to manage your stress, such as practicing yoga, meditation, or deep breathing exercises.
  9. Get Regular Facials: Facials help remove impurities and dead skin cells, which can clog pores and cause acne. They also help improve skin texture and tone, making your skin look brighter and smoother. Try to get a facial every month or every other month, depending on your skin type.
  10. Don't Smoke: Smoking can cause premature aging, wrinkles, and dull skin. It also constricts blood vessels, which can reduce circulation and cause skin problems. If you smoke, try to quit, and if you don't smoke, don't start.

In conclusion, these ten beauty tips will help you take care of your skin and feel good about yourself. Remember, beauty comes from within, and taking care of yourself both inside and out is essential for looking and feeling your best.

از ابتدائے آفرینش تا ابد زمانہ کی مدت

از ابتدائے آفرینش تا ابد زمانہ کی مدت

دنیا کی مجموعی عمر

ابتدا سے انتہاء تک یعنی تخلیق آدم سے قیامت تک زمانہ کی کل مقدار کے بارے میں علمائے سلف کا اختلاف واقع ہوا ہے۔ بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ زمانہ کی کل مقدار سات ہزار سال ہے اس قول کے قائل حضرت ابن عباسؓ ہیں ان سے مروی ہے کہ دنیا کی مجموعی عمر آخرت کے مقابلے میں سات ہزار سال ہے اس میں سے سات ہزار دوسو سال گزر چکے ہیں اور چند سو سال باقی ہیں۔
(یعنی چند صدیاں باقی ہیں نہ کہ ہزار)
بعض فرماتے ہیں کہ زمانے کی کل مقدار چھ ہزار سال ہے حضرت کعبؓ احبار سے یہی مروی ہے اور حضرت وہبؓ بن منبہ سے بھی اسی طرح نقل کیا گیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ دنیا کو پانچ ہزار چھ سو سال گزر چکے ہیں اور ہرزمانے میں جو انبیاءؑ اور سلاطین گزرے ہیں میں ان سے واقف ہوں راوی نے پوچھا دنیا کی کل مدت کتنی ہے فرمایا چھ ہزار سال۔

حدیث نبویﷺ

ان میں سے درست قول وہ ہے جس کی تائید و تقویت بہت سی احادیث صحیحہ سے ہوتی ہے۔ مثلاً ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپﷺ فرما رہے تھے کہ تمہاری عمر گذشتہ امتوں کے مقابلے میں اتنی ہے جتنا نماز عصر سے غروب شمس تک کا وقت (یعنی جو نسبت اس قلیل وقت کو پورے دن سے ہے وہی نسبت تمہاری مجموعی عمر کو گزشتہ امتوں کی مجموعی عمر سے ہے)۔
ابن عمرؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا آپﷺ فرما رہے تھے کہ خبردار بلاشبہ تمہاری عمر ان امتوں کے مقابلے میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں اتنی ہے جتنا کہ عصر اور مغرب کا درمیانی وقت۔
ابن عمرؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسوللہﷺ نے فرمایا میری امت کے لیے دنیا کی عمر میں صرف اتنی مقدار بچی ہے جتنی بعد نماز عصر سورج غروب ہونے سے باقی رہ جاتی ہے۔
ابن عمرؓ سے ہی مروی ہے کہ ہم نبی کریمﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور سورج قعقعان نامی پہاڑی پر چمک رہا تھا پس آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری عمریں گزری ہوئی امتوں کے مقابلے میں بس اتنی ہیں جتنا دن کا یہ حصہ گزرے ہوئے دن کی نسبت باقی رہ گیا ہے۔
انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن اپنے اصحاب کو خطبہ دیا اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا بس قلیل سا وقت باقی رہ گیا تھا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میں محمدﷺ کی جان ہے دنیا کی بقیہ عمر گزری ہوئی عمر کی نسبت صرف اتنی رہ گئی ہے جتنا کہ یہ دن گزرے ہوئے دن کی نسبت باقی ہے اور تم سورج کو غروب کے قریب ہی دیکھ رہے ہو۔
ابو سعیدؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے غروب شمس کے قریب فرمایا کہ دنیا کا باقی ماندہ حصہ گزرے ہوئے حصہ کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے کہ تمہارے آج کے دن کا بقیہ حصہ گزرے ہوئے دن کے مقابلے میں۔
ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح بھیجے گئے ہیں اور شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ساتھ ملایا۔ ابوہریرہؓ سے ایک دوسری سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔
جابر بن سمرہؓ بھی بلکل یہی حدیث روایت کرتے ہیں اور جابر بن سمرہؓ سے ایک دوسری روایت میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا میں گویا رسول اللہﷺ کی دو انگلیوں کی طرف دیکھ رہا ہوں اور پھر حضرت جابر بن سمرہؓ نے انگشت شہادت اور اس سے متصل (یعنی درمیانی) انگلی کے ساتھ اشارہ فرمایا اور کہا آپ فرما رہے تھے کہ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں(ذرا فرق سے آگے پیچھے) ہیں۔
جابر بن سمرہ ؓ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری بعثت قیامت سے صرف اتنی پہلے ہے جس طرح یہ دو انگلیاں اور پھر آپﷺ نے انگشت شہادت اور وسطی کو جمع کیا۔
شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے قتادہؓ سے اس قصہ کا یہ جملہ بھی سنا ہے کہ جس طرح ان دو انگلیوں میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت ہے لیکن میں یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ میں اس کو قتادہؓ کے حوالے سے نقل کروں یا حضرت انس بن مالکؓ کے حوالے سے (یعنی یہ قول قتادہؓ کا ہے یا انس بن مالک کا مجھے یہ فیصلہ کرنے میں دشواری ہے)۔
انسؓ بن مالک ایک مرتبہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پاس تشریف لائے اس نے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہﷺ سے قیامت کے بارے میں کیا سنا ہے انس بن مالکؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپﷺ فرما رہے تھے کہ تم اور قیامت ان دو انگلیوں کہ طرح قریب قریب ہو اور پھر اپنی دونوں انگلیوں سے انسؓ نے اشارہ کر کے دکھایا۔
عیاش بن ولید اور عبدالرحیم ابرقی کے طرق سے بھی یہ قصہ اسی طرح مروی ہے۔
معبد حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں اور آپﷺ کے کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں اور دونوں انگلیوں کے اشارے دکھائے
ابو التیاح بھی حضرت انس بن مالکؓ سے اسی کی مثل روایت کرتے ہیں۔ سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی دو انگلیوں درمیانی اور انگشت شہادت کے ساتھ اشارکیا اور فرمایا کہ میں اور قیامت ان دونوں کی طرح بھیجے گئے ہیں۔
سہیل بن سعد الساعدیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں اور پھر درمیانی انگلی اور انگشت شہادت کو خم کر کے دکھایا اور یہ بھی فرمایا کہ میری اور قیامت کی مثال دو گھوڑوں کی طرح ہے مزید فرمایا کہ میری اور قیامت کی مثال اس شخص کی طرح ہے جسے کسی قوم نے پیشرو کے طور پر آگے بھیجا ہو/ پس جب اسے دشمن کے حملے کا خطرہ ہوا تو وہ اپنے کپڑے اتار کر چیخا اور قوم کو خبردار کیا کہ تمہیں آ لیا گیا تمہیں گھیر لیا گیا پس میں بھی وہی آدمی ہوں وہی آدمی ہوں وہی آدمی ہوں۔
سہل بن سعد سے تین روایات جو مختلف سندوں سے مروی ہیں ان سب کا مضمون بنفسہ وہی ہے جو کہ گزشتہ روایات میں ذکر ہو چکا۔
عبداللہ بن بریدہ اپنے والد نے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ میں اور قیامت اکٹھے بھیجے گئے ہیں اور قریب ہے کہ قیامت مجھ پر سبقت کر جائے۔
المستورد بن شداد الفہری نبی کریمﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میں قیامت کے بلکل قریب بھیجا گیا ہوں اور میں نے اس پر صرف اتنی سبقت کی ہے جتنا کہ اس (وسطی) انگلی نے اس (انگشت شہادت) پر سبقت حاصل کی ہے اور راوی حدیث ابو عبداللہ نے دونو انگلیوں کو جمع کر کے کیفیت بیان کی۔
ابو جبیرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں قیامت کے ساتھ ساتھ اس طرح مبعوث ہوا ہوں جس طرح کہ یہ دونوں انگلیاں اور وسطی اور انگشت شہادت کے ساتھ ارشاد فرمایا( یعنی جس طرح وسطی انگلی کو انگشت شہادت پر تقدم حاصل ہے۔ اسی طرح مجھے بھی قیامت پر تقدم حاصل ہے۔
ابو جبیرہ مشائخ انصار سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ وہ فرماتے تھے میں اور قیامت اس طرح ہیں علامہ طبری کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد ہمارے استاد نے انگشت شہادت کو وسطی انگلی کے ساتھ ملا کر دکھایا اور فرمایا ہ اس طرح کہ اس طرح خم کرنے میں دونوں انگلیوں کے معمولی کے معمولی فرق کی طرف اشارہ ہے۔

حاصل بحث :

علامہ طبریؒ فرماتے کہ :
یہ بات گذشتہ روایات صحیحہ سے ثابت ہو چکی ہے اس امت کے حصے میں بقیہ امم کی نسبت صرف اتنا وقت آیا ہے جتنا کہ عصر و مغرب کے درمیان ہوتا ہے۔
اس مضمون کو نبی کریمﷺ نے مختلف الفاظ و انداز میں تعبیر فرمایا ہے جیسا کہ ماقبل میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہو چکا۔ مثلاً بعضج روایات میں فرمایا کہ دنیا کی باقی عمر گزری ہوئی عمر کے مقابلہ میں صرف اتنی رہ گئی ہے جتنا کہ تمہارا یہ دن گزرے ہوئے دن کہ نسبت باقی ہے اور یہ بات بعد نماز عصر ارشاد فرمائی تھی۔ کہیں اس مضمون کو اس طرح تعبیر فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں اور انگشت شہادت اور درمیانی کو ملا کر دکھایا۔ کہیں فرمایا کہ میں قیامت سے صرف اس قدر مقدم و سابق ہوں۔
حاصل ان سب کا یہی ہے کہ اس امت کی مجموعی عمر عصر و مغرب کے درمیانی وقت کے بقدر ہے لہٰذا اب یہ ثابت کرنا ہے کہ عصر و مغرب کے درمیانی وقت کو کل یوم کے ساتھ کیا نسبت ہے اور یہ کل کتنی مدت بنتی ہے۔
سو یہ عمر بلکل بدیہی ہے کہ یوم کی ابتداء طلوع فجر سے اور انتہا ٖغروب آفتاب پر ہوتی ہے اور عصر کا اوسط وقت اس وقت ہوتا ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو جائے اور یہ وقت غروب شمس تک کل یوم کا نصف سبع ہوتا ہے۔
اب اگر دنیا کی مجموعی عمر کو ایک یوم قرار دیا جائے جیسا کہ گذشتہ احادیث میں اس کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور اس یوم کی مقدار سات ہزار سال فرض کی جائے جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے تو اس یوم کا نصف سبع پانچ سو سال نکلتا ہے۔
اور یہ وہی مقدار ہے جو حضرت ابو ثعلبہؓ کی روایت میں وارد ہوئی ہے اس سے سند صحیح کے ساتھ مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اس امت کو میں نصف یوم سے پہلے عاجز نہیں کروں گا (یعنی نصف یوم سے پہلے اس کو ختم نہیں کروں گا)) اور یوم کی مقدار آخرت کے حساب سے ایک ہزار سال ہے لہٰذا وہ نصف یوم پانچ سو سال کا ہوا۔
ابو ثعلبہؓ کی اس روایت کے مطابق جب اس امت کی مجموعی عمر پانچ سو سال ہے تو گذشتہ امتوں کی کل عمر چھ ہزار پانچ سو سال ہوئی اور مجموعہ سات ہزار سال ہوا اور یہی ابن عباسؓ کا قول ہے کہ الدنیا حصقه من جمع الاخرۃ سبقه آلاف سنه معلوم ہوا کہ ابن عباسؓ کا قول احادیث سابقہ کے زیادہ اشبہ و اقرب ہے یہ تمام تر بحث اس قول کے مطابق تھی جو ہمارے نزدیک زیادہ صواب و اثبت ہے اس قول کی درستگی ان دلائل و شواہد پر مبنی ہے جو کہ ہم نے ما قبل میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیے ہیں۔
اور دوسرا قول جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی کل عمر چھ ہزار سال ہے یہ بھی بے اصل نہیں بلکہ حدیث سے ثابت ہے اگر حدیث سنداً صحیح ثابت ہو جائے تو ہم اس قول کو کسی اور طرح رد نہیں کریں گے بلکہ ثابت بالحدیث مانیں گے۔
سو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حقب اسی سال کا ہوتا ہے ان سالوں کا ایک دن مقدار دنیا کے سو سال کے برابر ہے۔ پس اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دنیا کہ کل عمر چھ ہزار سال ہے اور وہ اس طرح کہ آخرت کا ایک دن ایک ہزار سال کا ہوتا ہے اور اسی کو سدس قرار دیا گیا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ مدت دنیا چھ ہزار سال ہے۔

مدت دنیا

دیگر اقوام کے خیالات

یہود : یہود نے دعوی کیا تھا کہ آدمؑ سے لے کر ہجرت نبوی تک کل مدت دنیا جو ان کے نزدیک ثابت اور موجودہ نسخہ توارت کے موافق ہے وہ چار ہزار چھ سو بیالیس سال ہے اور یہود اسی کے موافق ایک ایک آدمی کی ولادت اور ایک ایک نبی کی بعثت اور ان کی وفات کا ذکر کرتے ہیں ۔ ہم عنقریب انشاء اللہ تعالی اس کی تفصیل ذکر کریں گے بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سی تفصیلات جن کو علماء اہل کتاب اور دیگر اہل تاریخ نے بیان کیا ہے ذکر کریں گے۔
نصاریٰ : اس کے برعکس یونان کے نصاریٰ نے دعوی کیا کہ یہود اپنے مذکورہ قول اور دعوی میں بالکل جھوٹے ہیں ۔ بلکہ تخلیق آدم سے ہجرت نبوت تک کل مدت دنیا کے بارے میں صحیح قول جو تورات کے موافق ہے وہ پانچ ہزار نو سو بانوے سال ہے اور نصاریٰ اسی کے موافق ہر نبی اور بادشاہ کا زمانہ اور ولادت و وفات وغیرہ کی تفصیلات بیان کرتے ہیں ۔ ان یہود نے حضرت عیسیٰؑ کا زمانہ نبوت اور نصاریٰ کی تاریخ جو ولادت عیسیٰؑ کے حالات صفات اور بعثت کا وقت وغیرہ سب کچھ تورات میں لکھا ہوا ہے لہذا ان کا انکار کرنا کذب و خیانت کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جس شخصیت کے حالات وصفات اور ولادت و بعثت تو رات میں مذکور ہیں جن کو نصاری حضرت عیسیٰؑ قرار دیتے ہیں یہود کے نظریے کے موافق وہ ابھی تک آئے ہی نہیں اور وہ ان کی ولادت و بعثت کے زمانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ علامہ طبری فرماتے ہیں کہ یہود جس شخص کا انتظار کر رہے ہیں اور بزعم خویش دعوی کرتے ہیں کہ اس کی صفات تو رات میں مذکور ہیں وہ در حقیقت دجال لعین ہے جس کی صفات نبی کریمﷺ نے اس امت کے لیے بیان فرمائیں اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کے اکثر متبعین یہود ہوں گے پس اگر وہ شخص عبداللہ بن صیاد ہو ( جیسا کہ بعض روایات اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں ) وہ یقینا یہودی نسل سے ہے۔
مجوس : مجوس کا کہنا ہے کہ جیومرت بادشاہ سے لے کر ہجرت نبویﷺ تک کل مدت تیس ہزار ایک سو انتالیس سال ہے لیکن وہ اس بادشاہ کا کوئی نسب نامہ ذکر نہیں کرتے کہ جس سے اس کے ماقبل پر روشنی پڑے بلکہ دعوی کرتے ہیں کہ جیومرت ہی ابوالبشر آدم علیہ اسلام ہیں ۔
اہل فارس : علامہ طبری فرماتے ہیں کہ اہل تاریخ کے جیومرت نامی بادشاہ کے بارے میں مختلف اقوال ہیں : (1) بعض تو اس کے قائل ہیں جو کہ مجوس نے کہا ۔ (۲) اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں حام بن یافث بن نوح ( یعنی حضرت نوح علیہ السلام ) کے پوتے ہیں انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی بہت خدمت گزاری کی اور تادم آخر ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کو سعادت مندی سمجھا سو حضرت نوح علیہ السلام نے ان کے لیے طویل حیات روئے زمین کی بادشاہت، دشمنوں کے خلاف آسمانی مدد کی دعا فرمائی اور یہ بھی کہ ان کی اولاد میں یہ سلسلہ دائمی طور پر جاری رہے پس اللہ تعالی نے یہ دعا قبول فرمائی اور جیومرت ( یعنی جامر بن یافث بن نوح ) کو روئے زمین کی بادشاہت ملی اور بادشاہت کے ملنے کے بعد ان کو آدم کہا جانے لگا۔ اور یہ ہی ابو الفرس (یعنی اہل فارس کے جدا مجد ) ہیں ان کی اولاد میں بھی نسل در نسل یہ بادشاہت چلی یہاں تک کہ مسلمان شاہ فارس کے شہروں میں داخل ہوئے اور اہل اسلام کو ان پر غلبہ حاصل ہوا تو حکومت و با دشاہت ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ اور بھی اقوال ہیں جن کو ہم انشاء اللہ عنقریب بادشاہوں کی تاریخ میں ذکر کریں گے۔ دنیا کب وجود میں آئی : اول: ہم اس سے پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ زمانہ لیل و نہار کی ساعات و گھڑیوں کا نام ہے اور لیل و نہار در حقیقت شمس و قمر کے اپنے محور میں سفر کی مخصوص گردش کا نام ہے جیسا کہ حق تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں۔ سورج اور چاند کی منزلیں : ان کے لیے ایک نشانی رات ہے ہم اس پر سے دن کھینچ لیتے ہیں پس وہ اندھیرے میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور سورج اپنی قرارگاه ( زمانی و مکانی ) کی طرف چلتا ہے اور یہ زبردست و با خبر ذات کا مقرر کردہ نظام ہے اور چاند اس کے سفر کی ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں یہاں تک کہ وہ (آخر میں ) کھجور کی پرانی شاخ کے مثل ہو جاتا ہے۔ نہ سورج کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت کر سکتی ہے اور ہر ایک (یعنی چاند سورج ) اپنے محور میں سفر کر رہا ہے ۔

(سورۃ یاسین آیت نمبر ۳۷ تا ۴۰)

پس جب ہم نے زمانے کی تعریف لیل و نہار کی ساعات سے کی اور لیل و نہار چاند و سورج کے اپنے محور میں مخصوص مسافت طے کرنے کا نام ہے تو اس سے یقینی طور پر بات معلوم ہو گئی کہ زمانہ میں حدوث و فنا ہے اور لیل و نہار میں بھی حدوث وفتا ہے اور ان کا محدث ( یعنی فنا کرنے والا ) اللہ تعالیٰ ہے جس نے ان تمام کو تنہا پیدا کیا ارشاد خداوندی ہے : وہی ذات ہے جس نے دن اور رات اور سورج و چاند کو پیدا فرمایا اور ہر ایک اپنے محور میں گردش کر رہا ہے۔