سید سلمان گیلانی کی اردو شاعری : رونق محفل


غزل

ان کی گلی میں برسوں رہائش کے باوجود

حاصل نہ کر سکا انہیں کوشش کے باوجود

آنکھوں سے آشکارہ نہیں ہونے دی تپش

دل میں دہکتی ہجر کی آتش کے باوجود

تیرا ہوں میں تو تیرے کرم سے ترا ہوں میں

شیطان اور نفس کی سازش کے باوجود

شاید اٹھیں وہ سن کے سرافیل کی صدا

جو نیند میں ہیں چار سو شورش کے باوجود

وہ زہر دے رہا تھا میں سمجھا شراب ہے

اک مغبچے کے ہاتھ کی لرزش کے باوجود

حیرت ہے ان پہ تجھ کو نہیں مانتے جو لوگ

شمس و قمر میں تیری نمائش کے باوجود

خواہش کے وہ بغیر ملے گا بروز حشر

دنیا میں جو نہ مل سکا خواہش کے باوجود

گیلانیؔ کوئی ایسا نہ ہوگا جو حشر میں

بخشا نہ جائے ان کی سفارش کے باوجود

سید سلمان گیلانی



غزل

تیری راہ دیکھتا میں بت بے وفا کہاں تک

تیرا انتظار میں نے کیا صبح کی اذاں تک

وہی راہزن جنہوں نے میرے کارواں کو لوٹا

بخدا انہی میں شامل ہے امیر کارواں تک

نہ اسے اگر بجھایا تو چمن کو پھونک دے گی

یہ آگ جو ابھی ہے میری شاخ آشیاں تک

کسی کوہ پر گزرتی تو وہ ریزہ ریزہ ہوتا

جو میرے چمن پہ گزری ہے بہار سے خزاں تک

مجھے سانپ بن کے ڈسنے وہاں شاخ شاخ لپکی

میں گیا جو فصل گل میں کبھی صحن گلستاں تک

تیرا دل بھی جانتا ہے کوئی ربط ہے یقیناً

تیرے قہقہوں سے لے کر میرے نالہ و فغاں تک

میرے پیار کی کہانی میرے عشق کا فسانہ

وہ ہے اب زباں زباں پر جو کھبی تھا رازداں تک

یہ مرا وجود سلماں ہے نشاں کسی کے غم کا

میں کسی کا ہو گیا جب نہ رہا مرا نشاں تک

سید سلمان گیلانی



غزل

پہلا سا اب وہ آہ میں اپنی اثر کہاں

پہلی سی اب وہ شدت درد جگر کہاں

ہوتا اک ہجوم رقیبوں کا ان کے ساتھ

نامہ ہمارا دے گا تو اے نامہ بر کہاں

سلمانؔ وہ تو میر نگاران شہر ہیں

مجھ جیسے خاکسار پر ان کی نظر کہاں

سید سلمان گیلانی



غزل

متاع حسن و جمال و کمال کیا کیا کچھ

چرا کے لے گئے یہ ماہ و سال کیا کیا کچھ

تو منہ سے بولے نہ بولے سنا رہے ہیں ہمیں

فسانے شب کے ترے خد و خال کیا کیا کچھ

مرے خدا نے ہے بخشا مجھے وراثت میں

مزاح و طنز و جمال و جلال کیا کیا کچھ

میں بچ گیا تری رحمت سے ورنہ مرقد میں

فرشتے کرتے نہ جانے سوال کیا کیا کچھ

سوائے اسوۂ شبیر کچھ نہ کام آیا

دھمال رقص یہ وجد اور حال کیا کیا کچھ

کرم ہے ان کا نہ ریجھا میں پھر بھی دنیا پر

تھا اس میں منصب و مال و منال کیا کیا کچھ

ہنسی کے پردے میں سلمانؔ نے چھپا لئے ہیں

مصیبت و غم و حزن و ملال کیا کیا کچھ

سید سلمان گیلانی



غزل

سفینہ زیست کا طوفان سے نکل آیا

کہ دل ہے عشق کے ہیجان سے نکل آیا

جب ان کی زلفوں کو سونگھا تو عندلیب خیال

گلاب و نرگس و ریحان سے نکل آیا

کوئی جو پیارا لگے روکتا ہوں حیلے سے

حوالہ دیکھیے قرآن سے نکل آیا

سنا تو ہوگا یہ قصہ جناب یوسف کا

پیالہ بھائی کے سامان سے نکل آیا

ہر آنے والا یہ کہتا ہے میرے آنے سے

ہمارا دیس ہے بحران سے نکل آیا

میں جس کا پوچھتا پھرتا تھا گل فروشوں سے

وہ پھول گھر کے ہی دالان سے نکل آیا

تمہارے غم کی کہانی سنی تو گیلانیؔ

میں اپنے حال پریشان سے نکل آیا

سید سلمان گیلانی



غزل

تعلقات میں اتنا سا اہتمام تو رکھ

نہ کر تو مجھ سے محبت دعا سلام تو رکھ

بتاؤں کیسے ترے ہجر میں کٹے مرے دن

تو ایک شب مرے گھر میں کبھی قیام تو رکھ

مری صفائی میں بھی شیر خوار بولیں گے

تو اے زلیخا محل میں مجھے غلام تو رکھ

تلاش کیسے کروں گا اندھیرے میں ترا گھر

جلا کے بام پہ کوئی چراغ شام تو رکھ

ہے کتنا مے سے تعلق مرا بتاتا ہوں

صراحی رکھ مرے آگے تو پہلے جام تو رکھ

سخن شناس بٹھائیں گے سر پہ گیلانیؔ

تو ان کے سامنے اپنا کوئی کلام تو رکھ

سید سلمان گیلانی



غزل

زیست یوں غم سے ہم آغوش ہوئی جاتی ہے

عشرت رفتہ فراموش ہوئی جاتی ہے

اس نے اک بار پکارا تھا حریم دل سے

زندگانی ہمہ تن گوش ہوئی جاتی ہے

تم نہ اٹھو مرے پہلو سے خدارا دیکھو

کائنات آنکھوں سے روپوش ہوئی جاتی ہے

وہ ادھر مجھ سے خفا ہو کے اٹھے ہیں تو ادھر

نبض دل دیکھیے خاموش ہوئی جاتی ہے

کثرت غم ہے کہ تکمیل جنوں ہے سلمانؔ

یاد بھی ان کی فراموش ہوئی جاتی ہے

سید سلمان گیلانی



غزل

میخانے کا در کیوں ہے مقفل متواتر

رہتی ہے طبیعت مری بوجھل متواتر

کرتا ہے وہ کیا تیغ کو صیقل متواتر

اک برق ہے رقصاں سر مقتل متواتر

وہ کل بھی کبھی آئے گی جس کل کو تو آئے

سنتا ہی رہوں یا تری کل کل متواتر

کب قیس کے مرنے سے کوئی فرق پڑا ہے

آتے ہی رہے دشت میں پاگل متواتر

کل خواب میں دیکھے تھے دھنک رنگ فلک پر

یاد آتا ہے مجھ کو ترا آنچل متواتر

مہتاب رخ اترا ہے کوئی اس میں یقیناً

ہے قلزم دل میں جو یہ ہلچل متواتر

سلمانؔ کو دیکھو کہ ہے مقتل میں وہ رقصاں

لب پر ہے ترا ذکر مسلسل متواتر

سید سلمان گیلانی



غزل

پچھتر سال سے ہم پر بلاؤں کی حکومت ہے

گرانی لوڈ شیڈنگ کی وباؤں کی حکومت ہے

عموماً اس لیے ہوتے ہیں کم بچے امیروں کے

وہاں پر باپ ہیں مجبور ماؤں کی حکومت ہے

سیاسی خاندانوں کی تو بس موجیں ہی موجیں ہیں

کھی اپنی کبھی تایئوں چچاؤں کی حکومت ہے

ہوا کا دیکھ کر رخ پارٹی لوٹے بدلتے ہیں

خبر رکھتے ہیں آگے کن ہواؤں کی حکومت ہے

سید سلمان گیلانی


اسماء الحسنیٰ کے فوائد و وظائف : تحفہء سعادت

السمیع

سب کچھ سننے والا

  1. جو کوئی جمعرات کے دن چاشت کی نماز کے بعد پانچ سو بار پڑھے گا انشاءاللہ مستجاب الدعوات بن جائے گا۔

  2. جو اسے کثرت سے پڑھے گا کم سننے کے مرض سے انشاءاللہ شفاء پائے گا۔

  3. جو کوئی جمعرات کے روز چاشت کی نماز کے بعد پانچ سو بار السمیع پڑھے گا اور ایک قول کے مطابق ہر روز سو بار پڑھا کرے گا اور پڑتے وقت بات چیت نہیں کرے گا اور پڑھ کر دعا مانگے گا پس جو مانگے گا انشاءاللہ پائے گا۔

  4. جو کوئی جمعرات کے دن فجر کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان پڑھے گا االلہ تعالیٰ اسے نظر خاص سے نوازے گا۔

امجد اسلام امجد کی اردو شاعری : اسلامی شاعری


حمد

سب ناموں کا مالک سب کے دکھ کا چارا ہے

ہر بستی پر روشن جو بے نام ستارہ ہے

ریگ رواں کی وحشت میں بھی ایک نشانی ہے

دریا کے سناٹے میں بھی ایک نشانی ہے

جد ازل سے جد ابد تک اس تاریکی میں

بام تمہارا روشن تھا یا نام تمہارا ہے

اتنی بڑی دنیاؤں میں کتنا بے مایہ

بڑے خسارے میں ہوں بیشک بڑا خسارا ہے

ہر رستے کی منزل ہے وہ ہر رستے کی راہ

اس تاریک خلا میں کیسا عجب ستارا ہے

اے آنکھیں اور آنکھوں کو یہ نیندیں دینے والے

میں نے ہر اک خواب میں چھپ کر تجھے پکارا ہے

تاروں کی پوشاک پہن کر رات سجانے والے

سورج تیرے حسن ازل کا ایک اشارا ہے

اے حرفوں کو آوازوں کی شکلیں دینے والے

تیرے حرفوں آوازوں نے تجھے پکارا ہے

کیسے بندے ہیں وہ امجدؔ جو یہ سوچتے ہیں

مولا سب دنیا کا نہیں ہے صرف ہمارا ہے

امجد اسلام امجد



نعت

ان کے دامن کی بات کی جائے

کوئی شکل نجات کی جائے

آپ کے سایئہ عطا میں بسر

زندگی کی یہ رات کی جائے

آپ کے لطف و اعتنا کی نظر

رہبر شش جہات کی جائے

آرزو کی زبان میں لکھ کر

آپ کی بات بات کی جائے

آپ کے اسم سے عبادت ہو

جو بھی سعی ثبات کی جائے

آپ کے دم سے صبح جاری ہو

آپ کے غم سے رات کی جائے

کر کے دھڑکن کا آئینہ روشن

کملی والے کی بات کی جائے

منہ میں جب تک زبان ہے باقی

آپ ہی کی صفات کی جائے

ذکر احمدﷺ کی ایک اک ساعت

حاصل کائنات کی جائے

آپ سے آگہی کی شرط ہے یہ

پہلے تسبیح ذات کی جائے

سائے جس سمت بھی بڑھیں امجدؔ

روشنی ساتھ ساتھ کی جائے

امجد اسلام امجد