امجد اسلام امجد کی اردو شاعری : اسلامی شاعری


حمد

سب ناموں کا مالک سب کے دکھ کا چارا ہے

ہر بستی پر روشن جو بے نام ستارہ ہے

ریگ رواں کی وحشت میں بھی ایک نشانی ہے

دریا کے سناٹے میں بھی ایک نشانی ہے

جد ازل سے جد ابد تک اس تاریکی میں

بام تمہارا روشن تھا یا نام تمہارا ہے

اتنی بڑی دنیاؤں میں کتنا بے مایہ

بڑے خسارے میں ہوں بیشک بڑا خسارا ہے

ہر رستے کی منزل ہے وہ ہر رستے کی راہ

اس تاریک خلا میں کیسا عجب ستارا ہے

اے آنکھیں اور آنکھوں کو یہ نیندیں دینے والے

میں نے ہر اک خواب میں چھپ کر تجھے پکارا ہے

تاروں کی پوشاک پہن کر رات سجانے والے

سورج تیرے حسن ازل کا ایک اشارا ہے

اے حرفوں کو آوازوں کی شکلیں دینے والے

تیرے حرفوں آوازوں نے تجھے پکارا ہے

کیسے بندے ہیں وہ امجدؔ جو یہ سوچتے ہیں

مولا سب دنیا کا نہیں ہے صرف ہمارا ہے

امجد اسلام امجد



نعت

ان کے دامن کی بات کی جائے

کوئی شکل نجات کی جائے

آپ کے سایئہ عطا میں بسر

زندگی کی یہ رات کی جائے

آپ کے لطف و اعتنا کی نظر

رہبر شش جہات کی جائے

آرزو کی زبان میں لکھ کر

آپ کی بات بات کی جائے

آپ کے اسم سے عبادت ہو

جو بھی سعی ثبات کی جائے

آپ کے دم سے صبح جاری ہو

آپ کے غم سے رات کی جائے

کر کے دھڑکن کا آئینہ روشن

کملی والے کی بات کی جائے

منہ میں جب تک زبان ہے باقی

آپ ہی کی صفات کی جائے

ذکر احمدﷺ کی ایک اک ساعت

حاصل کائنات کی جائے

آپ سے آگہی کی شرط ہے یہ

پہلے تسبیح ذات کی جائے

سائے جس سمت بھی بڑھیں امجدؔ

روشنی ساتھ ساتھ کی جائے

امجد اسلام امجد


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں