عنبرین حسیب عنبر کی اردو شاعری : رونق محفل

شعر

خوشیاں جھوٹی غم جھوٹے ہیں
دنیا کیا تم ہم جھوٹے ہیں
ہاں ہم کو بھی عشق تم سے ہے
ہم کیا تم سے کم جھوٹے ہیں

عنبرین حسیب عنبر

غزل

میں سرفراز ہوں تاریخ کے کرداروں میں
میں رہی شعلہ نوا شام کے درباروں میں
میں محبت کی علامت میں وفا کی تصویر
میں ہی چنوائی گئی قصر کی دیواروں میں
قدر یوسف کی زمانے کو بتائی میں نے
تم تو بیچ آئے اسے مصر کے بازاروں میں

غزل

گڑگڑائے نہیں ہاں حمد و ثناء سے مانگی
بھیک بھی ہم نے جو مانگی تو خدا سے مانگی
ہاتھ باندھے رہے پلکوں کو جھکائے رکھا
داد بھی ہم نے جو مانگی تو حیا سے مانگی
یہ بھی اڑ جائے جو اک چڑیا بچی ہے گھر میں
اتنی مہلت تو بہرحال خدا سے مانگی
تم بھی ثابت ہوئے کمزور منوؔر رانا
زندگی تم نے بھی مانگی تو دوا سے مانگی

سید سلمان گیلانی کی مزاحیہ شاعری : رونق محفل

کالج کا ماحول

عشق کا اعلانیہ اظہار ہونا چاہیے
کالجوں میں کھل کھلا کے پیار ہونا چاہیے
ہر جواں کی کوئی دل آرا ضروری ہے یہاں
ہر حسینہ کا کوئی دلدار ہونا چاہیے
کالجوں میں انگلش اردو میتھس اور سائنس کے ساتھ
لو کا اک سبجیکٹ بھی سرکار ہونا چاہیے
لڑکی لڑکے کو بلائے بھائی کہ کر جب کبھی
بھاری جرمانہ اسے ہر بار ہونا چاہیے
بھائی کہنے کے لیے کالج کے ہی فیلوز کیوں
بھائی ان کا گھر کا رشتہ دار ہونا چاہیے
بھائی کہنے کے لیے الطاف بھائی کم ہے کیا
بھائی کا آخر کوئی معیار ہونا چاہیے
اچھلیں کودیں ناچیں گائیں مل کے لڑکے لڑکیاں
جشن یہ اتوار کے اتور ہونا چاہیے
جب کڑی برقعے میں دیکھیں روک کر ہم کہ سکیں
تم کو تو خاتون خانہ دار ہونا چاہیے
جب کریں کڑیوں سے منڈے چھوٹی موٹی چھیڑ چھاڑ
ان کو چھڑنے کے لیے تیار ہونا چاہیے
ووٹ تم دو یا نہ دو لیکن جوانو سوچ لو
کیا مسلماں کا یہی کردار ہونا چاہیے
تم جو جو کچھ کہا ہے میں نے جو جو کچھ سنا
اس پہ سو سو بار استغفار ہونا چاہیے
دور کردے جو ہمیں خالق سے خالق کی قسم

ایسے کلچر کو سپرد نار ہونا چاہیے
تین ووٹوں سے ہے ہارا خوچہ گیلاؔنی تم آج
ہم نہ کہتا تھا کہ بیگم چار ہونا چاہیے